Friday, February 14, 2025
Homeٹرینڈنگاترپردیش میں بی جے پی کےلئے حالات مشکل ہوگئے

اترپردیش میں بی جے پی کےلئے حالات مشکل ہوگئے

- Advertisement -
- Advertisement -

لکھنو ۔ ہندوستان میں اس وقت انتخابی ماحول ہے اور اس گرم سیاسی ماحول میں شمالی اتر پردیش کے وارانسی اورگورکھپور حلقوں کا تذکرہ ان دنوں ترجیحات کی بنا پر ہو رہا ہے۔ گورکھپور میں اترپردیش کے چیف منسٹرٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی کارگزاریوںکو تو عوام دیکھ ہی رہے ہیں جبکہ وارانسی وزیر اعظم نریندر مودی کا پارلیمانی حلقہ ہے۔ ان پارلیمانی حلقوں میں جو کچھ نظرآرہا ہے اس سے صاف ہے کہ اس مرتبہ امیدواروں کو لوہے کے چنے چبانے پڑ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مودی اقتدار کے تابوت میں آخری کیل وارانسی میں ہی ٹھوکی جائے۔

یہ تو طے ہے کہ پورے شمالی اتر پردیش علاقے میں روزگار سب سے بڑا مسئلہ ہے اور واضح طور پر بی جے پی کے لئے یہ راہ اب ناہموار ہوچکی ہے۔ اسے الٰہ آباد ضلع کورٹ میں وکیل اندرکانت پانڈے کی اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مسئلہ تو روزگار ہی ہے۔ زراعت میں چھوٹی جوت ہونے اور فائدہ کا سودا نہ ہو پانے کے سبب کوئی بھی نوجوان زراعت نہیں کرنا چاہتا، اسے ملازمت چاہئے اور ریاست میں ہی ملازمت چاہئے۔

دوسرا سب سے بڑا مسئلہ زراعت ہے۔ رانی گنج میں سوامی کرپاتری جی انٹرکالج کے پرنسپل ڈاکٹر رام کمار پانڈے کا خیال ہے مہنگی تعلیم ہونے کے باوجود زراعت کرنے والا کسان بیٹے کو اس امید سے پڑھاتا ہے کہ اس کے بھی دن اچھے آئیں گے لیکن اسے کھیت فروخت کرنے کو مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ کشی نگر ضلع میں چھتونی کے گنا کسان برجیش مل بھی کہتے ہیں کہ تقریباً تین لاکھ قیمت کا گنا فروخت کیا ہے۔ تقریباً 14 دن گزرگئے لیکن ادائیگی نہیں ہوئی۔ علی اور بجرنگ بلی سے ضروری ہے گنے کی ادائیگی۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے چیف منسٹر سے امیدیں تھیں لیکن مایوسی ہاتھ لگی۔

ویسے اب کئی علاقوں میں امیدواروں کی سرگرمی نظر آنے لگی ہے۔ کشی نگر سے کانگریس امیدوار اور سابق مرکزی وزیر کنور آر پی این سنگھ کی حویلی پر صبح سے ہی سیاسی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ راج گھرانے سے تعلق رکھنے والے آر پی این ہوائی چپل پہن کر ہی رابطہ کرنے نکل پڑتے ہیں۔ کسیا کے باشندہ 80 سالہ بزرگ وجے کشواہا نے کہا کہ آر پی این نے ہی کشی نگر میں سڑکوں کا جال بچھایا، لیکن ذات کے جال میں الجھے سیاسی منظرنامے میں جیت کے الگ الگ پیمانے ہو گئے ہیں۔

مہاراج گنج سے کانگریس امیدوار سپریا شری نیت کی انتخابی تشہیر الگ انداز کی ہے۔ میڈیا سے سیاست کی پچ پر اتر کر رکن پارلیمنٹ والد ہرش وردھن کی وراثت سنبھالنے پہنچی سپریا لوگوں کے درمیان پہنچ کر یہی تعارف پیش کر رہی ہیں میں سپریا، ہرش وردھن کی بیٹی۔ سپریا خواتین کے درمیان پہنچ کر والد کے جدوجہد کو بتا رہی ہیں اور ووٹ دینے کی اپیل کر رہی ہیں۔

مہاراج گنج میں دوا کاروباری پروین عرف رانو سنگھ نے کہا کہ زور آور امر منی ترپاٹھی اورتاجر سے سیاست داں بنے پنکج چودھری کے اثر والے حلقے میں صرف ہمدردی جیت ہارکی بنیاد رہی ہے۔ پہلی مرتبہ علاقے میںتعلیم یافتہ خاتون کے میدان میں اترنے سے عوام میں امید بڑھی ہے۔ لوگوں میں بھروسہ بڑھا ہے کہ دہلی میں مضبوطی سے ان کی آواز پہنچانے والا اب کوئی ہے۔

مہاراج گنج میں زور آور امرمنی ترپاٹھی کی بیٹی تنوشری ترپاٹھی بھی لندن کی پڑھائی چھوڑ کر سیاسی میدان میں ہیں۔ شیوپال یادوکی پارٹی پرگتی شیل سماجوادی پارٹی لوہیاکے بینر تلے انتخاب لڑ رہی تنوشری بھی ووٹروں کے درمیان والد کے جدوجہد کا حوالہ دے کر ووٹ کی اپیل کر رہی ہیں۔

واضح ہے کہ مشرق کے اضلاع میں بی جے پی کے لئے کامیابی آسان نہیںہے۔ غازی پور کے سماجی کارکن شیویندر پاٹھک کے مطابق بی جے پی گزشتہ انتخاب میں یہاں سے بازی مار لے گئی لیکن اس مرتبہ اسے مشکل ہوگی۔ یہاں سے پچھلی مرتبہ مرکزی وزیر منوج سنہا منتخب ہو کر لوک سبھا پہنچے تھے۔ ترقی کے علاوہ ذاتی مسائل بھی یہاں پوری طاقت سے انتخاب لڑتے ہیں لہذا ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد کے افضال انصاری کو یہاں مضبوطی مل سکتی ہے۔

مرزا پور اور سون بھدر سٹے ہوئے اضلاع ہیں۔ مرزا پور میں سہ رخی لڑائی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہاں انوپریا پٹیل اور ان کی پارٹی اپنے ذات پات والے فارمولے سے حاوی نظر آتی ہے۔ لیکن اگر ذات برادری کی بات کمزور پڑی اور ترقی مسئلہ ہوا تو انوپریا کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ ایک بڑی وجہ امیدواروں کے بیرونی ہونے کا بھی ہے۔ یہاں کے رامیشور وِند نے کہا ہے کہ کبھی پھولن دیوی توکبھی انوپریا تو کبھی کوئی، سبھی باہرسے آتے ہیں اور کامیابی کے بعد کچھ نہیں کرتے۔ اتحاد نے بھی جس امیدوارکو اتارا ہے وہ بھی باہر کا باشندہ ہے لہذا یہاں سہ رخی مقابلہ کا امکان ہے اور ایسا ہونے پر فائدہ کانگریس کے للتیش پتی کو مل سکتا ہے۔

سون بھدر میں اپنا دل۔ بی جے پی اتحاد سے پکوڑی کول امیدوار ہیں۔ ان کے سامنے ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد سے سابق رکن پارلیمنٹ بھائی لال کول ہیں۔ کانگریس نے یہاں سے پرانے لیڈر بھگوتی چودھری کو ٹکٹ دیا ہے۔ شیوپال یادو کی پارٹی سے روبی پرساد ہیں۔ سون بھدر کے سنگم لال کا ماننا ہے کہ اس بار بتایا جائے گا کہ ترقی نہیں تو ووٹ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنا دَل اور اتحاد میں ہی لڑائی ہے۔

جون پور سیٹ پر بی جے پی کو ترقی کے نام پر ووٹ لینے اور کوئی ترقی نہ کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ یہاں بی جے پی نے اپنا امیدوار وہی رکھا ہے جو پچھلی مرتبہ تھا۔ جون پور شہر کے راجندر سنگھ نے کہا ہے کہ بی جے پی امیدوار سے اب لوگوں کو بہت امید نہیں ہے۔ بی جے پی میں بھی اس فیصلے سے مایوسی ہے۔ عوام ناراض ہیں۔ ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد نے یہاں سے نوکرشاہ شیام سنگھ یادوکو ٹکٹ دیا ہے۔ ان تمام حالات میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ اب یہاں بی جے پی کے لئے راہ ہموار نہیں