Tuesday, October 8, 2024
Homeٹرینڈنگاذان اسکول واقعہ اور ہمارا رویہ

اذان اسکول واقعہ اور ہمارا رویہ

حیدرآباد۔ اذان انٹر نیشنل اسکول میں جمعہ کے دن ایک پانچ سالہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعہ کے بعد افواہوں کا بازار گرم رہا ہے۔ ہفتہ کی صبح بعض عناصر کی جانب سے یہ افواہ پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ متاثرہ کمسن جانبر نہ ہوسکی جس میں کوئی صداقت نہیں تھی، شائد اس کے پس پردہ یہ ذہن کارفرما رہا ہوگا کہ عوام غصہ سے بے قابو ہوکر اسکول پر ٹوٹ پڑے۔ اسی طرح ملزم کو رہا کردینے یا پولیس کی جانب سے اسکول انتظامیہ کی پشت پناہی کرنے حتیٰ کہ اسکول انتظامیہ کے ایک فرد کی جانب سے ہی عصمت ریزی کئے جانے جیسی باتیں پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس واقعہ کی آڑ میں بعض عناصر اسکول کو نشانہ  بنانے کی نیت سے بھی ماحول کو گرمانے کی کوششوں میں لگے رہے۔ متاثرہ بچی کا نیلوفر میں کامیاب علاج کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ اسے آج ڈسچارج بھی کردیا جائے گا۔ پولیس نے جمعہ کی شب ہی ملزم کو حراست میں لے لیا ہے اور اس کے ساتھ کڑی پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تفتیش میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو اس لئے ملزم کو بلارم پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا ہے جہاں اس کی تفتیش کی جارہی ہے۔ پولیس مختلف پہلوؤں سے اس کیس کا جائزہ لے رہی ہے۔ موقع واردات سے شواہد اکٹھا کئے گئے ہیں اور متاثرہ لڑکی کی طبی جانچ کی رپورٹ کی روشنی میں ارتکاب جرم کی کڑیاں ملانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کو لگ رہا ہے کہ کچھ کڑیاں نہیں مل رہی ہیں۔ اگرچہ پولیس نے ملزم کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 376 اوربچوں کو جنسی جرائم سے بچاؤ کے قانون POCSO Act کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے ، تاہم اسے آج رات یا کل جج کے روبرو پیش کرتے ہوئے پولیس تحویل میں لے لیا جائے گا ۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کے بعد اسکول انتظامیہ کے خلاف لاپرواہی کا مقدمہ درج کرتے ہوئے مناسب کارروائی کی جائے گی تاہم عوام کو چاہئے کہ وہ پولیس کو غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے اور قانون کے مطابق کارروائی کرنے دی جائے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پرامن ماحول کو بگاڑنے کی کوشش نہ کی جائے ۔اس واقعہ کے تناظر میں اسکول پر حملہ کرنے اور لاء اینڈ آرڈر کو بگاڑنے کی کوشش کرنے والوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو گذشتہ دو دن سے اسکول کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ خواتین جو متاثرہ لڑکی کے رشتہ دار بتائے جاتے ہیں آج بھی اسکول پہنچ کر ہنگامہ آرائی کررہی تھیں۔ اس مذموم واقعہ کی اطلاع کے بعد کل رات سے ہی اسکول کے روبرو احتجاجی مظاہروں کے علاوہ اسکول کی املاک کو نقصان پہنچانے اور لاء اینڈ آرڈر بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ آج سہ پہر بھی نوجوانوں کا ایک گروپ اسکول پہنچ کر پرتشدد کارروائیاں کرنے لگا جس پر انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ معصوم لڑکی کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز حرکت کی گئی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور خاطی کو اتنی سخت سزائی دی جانی چاہئے کہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ کرے تاہم ہم میں اتنا تحمل نہیں ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو قانون کے مطابق کارروائی کا موقع دیا جائے اور انہیں جرم ثابت کرنے کی مہلت دی جائے۔ ہم لڑکی کے خاندان کی تکلیف اور ان پر ٹوٹے غم کو بھی سمجھتے ہیں اس کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قانون ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور کسی بھی ملزم کو اس کے جرم کی قرار واقعی سزاء دینے کے لئے کچھ قانونی مراحل ہوتے ہیں جن کو طئے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ ماں باپ اپنے بچوں کواسکول انتظامیہ کے بھروسہ ہی اسکول بھیجتے ہیں اور وہ مطمئن ہوتے ہیں کہ اسکول میں ان کے بچے محفوظ ہوں گے اورانہیں کسی قسم کی کھروچ بھی آتی ہے تواس کی ذمہ داری اسکول انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے لیکن اسکول کے ایک ملازم کی اس گھناؤنی حرکت کے لئے اسکول انتظامیہ کو بھی اتنا ہی قصور وار ٹھہرا یا جارہا ہے جتنا کہ اس گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہے۔ متاثرہ لڑکی کے ایک رشتہ دار نے اس واقعہ کے لئے نہ صرف اس اسکول کو بند کرنے، مہر بند کردینے اس کی مسلمہ حیثیت برخاست کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں بلکہ اسکول کی عمارت کو بلڈوزر سے ڈھادینے کی بھی مانگ کررہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس اسکول کے صدرنشین، پرنسپال اورکلاس ٹیچر کو بھی گرفتار کرلیا جائے۔ پولیس پر اسکول انتظامیہ کو بچانے کی کوشش کرنے کا بھی الزام عائد کیاجارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک سیاسی پارٹی پر بھی انہوں نے الزام عائد کیا کہ وہ اسکول انتظامیہ کو بچانے کی کوشش کررہی ہے ، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ آج ہمارا مزاج کچھ اس طرح کا بن چکا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ کسی واقعہ کو ہم جس نظریہ سے دیکھتے ہیں،قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں بھی ویسا ہی دیکھے اور قانون بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم جیسا چاہتے ہیں ویسی سزائیں دیں۔قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی بھی کچھ مجبوریا ں ہوتی ہیں وہ قانون کے ہاتھوں بندھے ہوتے ہیں اورانہیں قانون کے دائرہ میں رہ کر ہی کام کرنا ہوگا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جرم ثابت ہونے پر ملزم کو عبرت ناک سزاء دی جائے اور اب ایسا ممکن ہے چونکہ قانون ہی اتنا سخت بنادیا گیا ہے کہ کوئی بھی ملزم ایسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرکے آزاد گھوم نہیں سکتا ۔ ایسے واقعات میں میڈیا کو ایک متوازن رول ادا کرنا پڑتا ہے مگر سوشیل میڈیا کے سہارے صحافیوں کی صف میں شامل ہوجانے والے کچھ جہلا ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں صحافتی اقدار کی دھجیاں اڑاتے نظر آرہے ہیں۔ فیس بک اور واٹس اپ کے ذریعہ خبروں کی ترسیل کرنے والوں میں کچھ تو لڑکی کے والد کی متاثرہ معصوم کے ساتھ ویڈیو جاری کردئیے اور کچھ نے لڑکی کی تصاوی عام کردی ہیں۔ حالانکہ قانون کی رو سے عصمت ریزی کے شکار خواتین اور نابالغ لڑکیوں کی شناخت کو پوشیدہ رکھنا ہے اور مختلف قواعد کی رو سے متاثرہ خاتون کی طرف اشارہ کرنے والی ہر اس چیز کو ظاہر کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے متاثرہ لڑکی کی شناخت ہوجائے، جیسا کہ متاثرہ کے ارکان خاندان، اس کا گھر یا موت کی صورت میں آخری رسومات وغیرہ ۔