Wednesday, April 23, 2025
Homeبین الاقوامیامریکہ کاطالبان سےدوحہ میں مذاکراتی اجلاس،سود مند نتائج کی امیدیں ماند

امریکہ کاطالبان سےدوحہ میں مذاکراتی اجلاس،سود مند نتائج کی امیدیں ماند

- Advertisement -
- Advertisement -

دوحہ۔امریکہ اور افغان طالبان کےدرمیان قطر کے دارالحکومت  دوحہ میں امن مذاکرات کے نویں مرحلے میں بظاہر ماحول کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ ایک دن قبل تک  لگ رہا تھا جیسے کسی بھی لمحے امن معاہدہ طےہو جائے گا جب کہ ایک دن بعد  اس سلسلے میں کسی فریق کی جانب سےجلدی نظر نہیں آئی۔تجزیہ نگاروں کے بقول القاعدہ سے قطع تعلق کی شرط طالبان کے لیے کڑوی گولی ثابت ہو رہی ہے جب کہ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان ہر صورت یہ شرط قبول کریں کہ وہ القاعدہ، داعش اور دیگر بین الاقوامی جہادیوں کو امریکہ کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

دوحہ امن مذاکرات کے دوران جو خبریں ملی ہیں اس میں واضح ہوتا ہے کہ مذاکرات کا ماحول منگل کی نسبت چہارشبنہ کو بدلا بدلا نظر آیا۔ منگل کو لگ رہا تھا کہ امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کسی بھی لمحے افغانستان روانہ ہو جائیں گے جہاں وہ طالبان کے ساتھ طے پانے والی شرائط و معاہدے پر افغانستان کی حکومت اور اتحادیوں کو اعتماد میں لیں گےلیکن ایسا نہ ہو سکا۔اگرچہ توقع تو اب بھی موجود ہے کہ خلیل زاد کوئی معاہدہ طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن چہارشنبہ کو ان کے الفاظ میں فریقین کے مذاکرات کاروں کا وہ  موڈ نظر نہیں آیا جو منگل کے دن تھا۔ بظاہر لگتا ہے کہ کچھ معاملات بالخصوص القاعدہ کے ساتھ طالبان کا تعلق مشکل پیدا کر رہا ہے۔

کامران بخاری سینٹر فار گلوبل پالیسی سے وابستہ سینئر فیلو ہیں۔ وہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں انتہاپسندی سے متعلق پروگرام سے بھی منسلک ہیں۔ میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات پر حیرت نہیں ہے مذاکرات کی رفتار اور مزاج بدل رہا ہے۔افغان طالبان کبھی بھی نہیں چاہتے کہ القاعدہ کے ساتھ وہ قطع تعلق کریں۔ مستقبل کی ممکنہ مورچہ بندی میں جہاں انہیں ایک طرف داعش کا سامنا ہو گا اور دوسری طرف جنگی سرداروں کا، وہ القاعدہ کو اپنی طاقت کا حصہ رکھنا چاہیں گے۔افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے ان حالات پر اپنے خیالات میں کہا ہےکہ اگرچہ مذاکرات کسی معاہدے کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا طالبان القاعدہ کے بارے میں کوئی یقین دہانی کراتے ہیں کہ اس گروپ کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔

وہ بھی ایسے وقت میں جب طالبان شوریٰ کی ہدایت پر ان کے مذاکرات کاروں نے القاعدہ کے خلاف امریکہ کی خواہش کے باوجود مذمتی بیان جاری نہیں کیا۔تجزیہ نگار امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سینئر ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کے بیانات کو بھی اہمیت دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنے میں کوئی جلدی نہیں ہے، جب کہ سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹیلی ویڑن سی بی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ کو تجویز دی تھی کہ وہ افغانستان میں امریکہ افواج کی تعداد 8 ہزار 600 سے کم نہ کریں۔

 ان کے بقول طالبان کی نہ تو نیت ہے اور نہ اہلیت کہ وہ افغانستان میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ کریں۔ لنڈسے گراہم سینیٹ کی جوڈشری کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بیانات بھی بدلتے ہوئے ماحول کا اشارہ دیتے ہیں۔کامران بخاری نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ  لنڈسے گراہم اور دیگر پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے میز پر کمزوری کے ساتھ نہیں بلکہ طاقت کے ساتھ شرکت کی جائے۔ ان کے بقول اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکہ بھرپور طاقت کے استعمال سے مخالف قوتوں کو مذاکرات کی میز پر آنے اور کسی معاہدے پر مجبور کر دے لیکن اس کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ اور افغانستان میں صورت حال ایسی ہی جاری رہے گی۔