دیس پور ۔ آسام شہریت پر موجود تنازعہ میں اب ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیا ہے جیسا کہ اس کے متعلق لکھی گئی نظم پر 10 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی۔ میا زبان میں لکھی گئی اس نظم کے متعلق شکایت میں کہا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ آسام کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جن افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے ان میں بیشتر بنگال نژاد مسلم شاعر اور سماجی کارکن ہیں۔
ایف آئی آر کے تعلق سے گواہاٹی سنٹرل کے ڈی سی پی دھرمیندر کمار داس نے کہا کہ ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ حالانکہ ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفعہ 420/406 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس ایف آئی آر سے نظم نگار حیران ہیں اور اپنے خلاف کارروائی کو غلط ٹھہرا رہے ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروایا گیا ہے ان میں سے ایک عبدالکلام آزاد نے کہا ہے کہ کیا ہمیں حقیقی لوگوں پر نظم لکھنے کا بھی اختیار نہیں ہے۔ جنھیں مشتبہ شہریوں کے گروپ میں رکھا گیا ہے یا نظر بند کیمپوں میں بھیجا جا رہا ہے، کیا ان کی حالت بھی نظم میں بیان نہیں کی جا سکتی؟
دراصل آسام میں غیر قانونی طریقے سے آنے والے بیرونی افراد کو واپس بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اس کے تحت آسام میں تقریباً 40 لاکھ لوگوں کو ان کی ہندوستانی شہریت سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ حکومت کے اس قدم سے نہ صرف متاثرین پریشان ہیں بلکہ سماجی کارکنان بھی فکر میں مبتلا ہیں۔ ایک ہندی ویب سائٹ پر تو ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں جس میں لکھا گیا ہے کہ شہریت جانے کے خوف سے کچھ لوگوں نے صدمے میں خودکشی کر لی۔ 88 سالہ اشرف علی کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ گھر والوں سے باہر سے کھانا لانے کی بات کہہ کر نکلا تھا لیکن زہر کھا کر اس نے خودکشی کر لی۔
بہر حال، آسام شہریت تنازعہ پر لکھی گئی نظم کو آسام کے کچھ لوگ ریاست کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ مقامی باشندہ پرنب جیت دولوئی نے اپنی تحریری شکایت میں کہا ہے کہ ملزمین کی منشا پوری دنیا کی نظروں میں آسام کے لوگوں کی شبیہ جینوفوبک کی شکل میں بنانے کی ہے اور یہ آسام کے عوام کے ساتھ ملک کی قومی سیکورٹی و خیر سگالی کے لیے بھی خطرہ ہے۔ شکایت میں مزید لکھا گیا ہے کہ اس نظم کا اصل مقصد نظامِ قانون کے خلاف مختلف طبقوں کو مشتعل کرنا ہے۔