Saturday, May 10, 2025
Homeبین الاقوامیایران ۔ امریکہ کشیدگی میں جاپان کے نقصانات

ایران ۔ امریکہ کشیدگی میں جاپان کے نقصانات

- Advertisement -
- Advertisement -

ٹوکیو۔ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لئے دورہ تہران پر پہنچے جاپانی وزیر اعظم شنزو ابے نے ایرانی رہنما آیت اللہ علی خامنہ آئی سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں ایرانی صدر اور دونوں ممالک کے اعلی حکام شریک تھے جس میں وزیراعظم شنزو ابے اور خامنہ آئی نے دوطرفہ تعلقات، علاقائی صورتحال اور مختلف عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ایرانی لیڈر نے ایک ٹویٹ میں دونوں رہنماوں کی ملاقات کی ایک تصویر شائع کی گئی ہے۔ جاپان کے وزیر اعظم شنزو ابے نے خبردارکیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی برقرار رہی تو جنگ کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ جاپانی وزیر اعظم امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کی کوششوں کے سلسلے میں تہران پہنچے تھے۔

جاپان اور ایران اس سال سرکاری طور پر سفارتی تعلقات کی 90 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ یہ دورہ اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاپان کے سرکاری دورے کے فوراً بعد شروع کیا گیا ہے۔امریکہ اور ایران کے درمیان گذشتہ سال کشیدگی اس وقت بڑھنا شروع ہو ئی جب صدر ٹرمپ نے اس معاہدہ کو منسوخ کر دیا جس میں ایران جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے رضامند ہو گیا تھا۔

اس کے بعد سے امریکہ نے تہران پر سخت اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں اور خلیج میں فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ 2015 میں ایران نے اقتصادی پابندیاں اٹھانے کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر رضا مندی ظاہرکی تھی۔ یہ معاہدہ اوبامہ انتظامیہ نے کیا تھا لیکن گذشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ نے اس کو منسوخ کر دیا۔

امریکہ نے اس کے بعد یکطرفہ طور پر ایران پر پابندیاں عائد کردیں جبکہ 2015 کے معاہدے میں حصہ لینے والے دیگر ممالک (یورپی یونین، روس، اورچین) کی ابھی بھی کوشش ہے کہ معاہدہ قائم رہے۔اقتصادی پابندیوں کے ردِ عمل کے طور پر گذشتہ ماہ ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ معاہدے کی کچھ خلاف ورزی کرے گا۔ آئی اے ای اے نے کہا کہ ایران نے افزودہ یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کر دیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ 2015 کی طے شدہ حد تک کب پہنچے گا۔

ٹرمپ نے امریکہ کی سفارت کاری کو اس کے بعض قریبی اتحادیوں سے تصادم کے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ ٹوکیو کبھی بھی ایران کے ساتھ معاہدے کا حصہ نہیں رہا لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ وہ اس سے متاثر نہیں ہے۔جاپان ایران سے تیل درآمد کیا کرتا تھا۔ تازہ امریکی اقتصادی پابندیوں کے بعد اس نے واشنگٹن کے دباوکے تحت ایران سے درآمد بند کر دی۔ ٹوکیو ٹیمپل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر آف ایشین اسٹڈیز پروفیسر جیف کنگسٹن کے بموجب جاپان 2015 کے معاہدہ کی حمایت کرتا ہے اور اس بات سے ناراض ہے کہ امریکہ نے اس سے ہاتھ کھینچا ہے اور اس کے خیال میں واقعی یہ ایک بڑی غلطی ہے لیکن یہ معاملہ اس کے بس میں نہیں ہے، اس لیے جیسے ہی امریکہ نے پابندیاں لگائیں تو اس میں کچھ حیرت کی بات نہیں کہ جاپان نے بھی وہی کیا۔ ابھی جاپان ایرانی تیل کے بغیر بھی گزارا کر سکتا ہے لیکن مشرقی وسطیٰ میں کوئی بھی لڑائی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دے گی اور جاپان پر اس کا کافی اثر پڑے گا۔