ریاض ۔سعودی عرب کے انسانی حقوق کمیشن نے والدین کو انتباہ دیا ہے کہ بیٹیوں کی شادی میں تاخیر نہ کریں۔سعودی پریس ایجنسی واس کے مطابق ایسے والدین انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔سعودی عرب کے ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ والدین کا یہ عمل ناقابل قبول ہے۔
اس سے خواتین کا استحقاق مجروح ہوتا ہے اور ہمارے مذہب میں بھی بیٹیوں کی شادی میں تاخیر سے منع کیا گیا ہے۔سعودی عرب کے قانون کے مطابق ایسا کرنے والے والدین کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شریعت کے قانون کے مطابق ایسی خواتین جنہیں اپنی شادی کے حوالے سے والدین کی طرف سے ایسے رویے کا سامنا ہو وہ مقدمہ دائر کرنے کی مجاز ہیں۔انسانی حقوق کمیشن نے متعلقہ حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ خواتین کے حقوق سے متعلق شعور اجاگر کریں اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے والدین پر جرمانے عائد کیے جائیں۔
دوسری جانب ایک خیال ہے کہ سعودی عرب میں شادیاں انجام پانا مشکل کام ہورہا ہے کیونکہ سعودی عرب میں خوبصورت شریک حیات کا حصول لڑکوں کےلئے مہنگا سودا ثابت ہورہا ہے کیونکہ لڑکیوں کی جانب سے نکاح کےلئے موٹی رقم کا مطالبہ اب ایک رجحان بن چکا ہے ۔اس کے علاوہ دیگر کئی وجوہات ہے جس میں ایک اہم وجہ مثال کے طور پر یہاں پیش کی جارہی ہے ۔
سعودی سیلز مین ماجد شادی کی تیاری کر رہے تھے جب ان کی منگیتر نے ان سے نکاح نامے میں ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا مطالبہ کر دیا جو کہ ماجد کےلئے ایک مشکل فیصلہ تھا ۔سعودی عرب میں جہاں خواتین اکثر شوہر یا اس کے اہل خانہ کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، نکاح نامے میں شرائط ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔عام طور پر سعودی معاشرے میں خواتین نکاح نامے میں ذاتی رہائش، ملازم رکھنے، تعلیم یا نوکری جاری رکھنے کی شرائط رکھتی ہیں اور ان شرائط کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔
تاہم جب سعودی حکومت نے پچھلے سال خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد دہائیوں پرانی پابندی ہٹائی تو اب نکاح ناموں میں ڈرائیونگ کی اجازت مقبول شرط بن چکی ہے۔29 سالہ ماجد نے کہا کہ انہوں نے اپنی 21 سالہ منگیتر کی شادی کے بعد ڈرائیونگ کے علاوہ ملازمت کرنے کی شرط مان لی ہے۔
ماجد کے مطابق، ان کی منگیتر شادی کے بعد بھی آزادی چاہتی ہیں اور مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔سعودی عرب میں خواتین کو تعلیم، شادی وغیرہ کے برعکس ڈرائیونگ کے لیے شوہر، باپ یا بھائی جیسے محرم کی براہ راست اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم یہ ابہام ضرور موجود ہے کہ اگرمحرم انہیں ڈرائیونگ سے روکے تو قانون انہیں کیا تحفظ فراہم کرتا ہے اور کئی سعودی لوگ اسی قانونی سقم کا سہارا لیتے ہیں۔
ریاض کے ایک نکاح خواں عبدالمحسن العجمی نے کہاکہ کچھ خواتین شادی کے بعد اسی طرح کے مسائل سے بچنے کے لیے نکاح ناموں میں یہ شرط رکھواتی ہیں کیونکہ اس طرح شوہر انہیں روکنے کا مجاز نہیں رہتا۔
دہران شہر کی ایک 72 سالہ گھریلو خاتون منیرا السینانی کہتی ہیں کہ حال ہی میں دو ایسے واقعات ان کی نظروں سے گزرے ہیں۔منیرا نے کہا کہ کس طرح ایک لڑکی نے اپنے ممکنہ شوہر کو دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر انہیں ڈرائیونگ کی اجازت نہ ملی تو معاملہ ختم سمجھیں۔
اس رجحان سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی خواتین نکاح ناموں کی شرائط کے ذریعے من مانی کو بتدریج اولیت دے رہی ہیں۔نکاح خوان عبدالمحسن العجمی نے کہا کہ ایک خاتون نے شرط رکھی کہ شادی کے پہلے سال وہ حاملہ نہیں ہونا چاہتی اور شوہر کا ان کی تنخواہ پر کوئی حق نہیں ہوگا۔
ایک خاتون نے اپنا نکاح نامہ آن لائن کر دیا جس پر سوشل میڈیا پر بھونچال آ گیا۔ اس نکاح نامے کے مطابق ان خاتون کے شوہر کو دوسری شادی کا حق نہیں ہوگا۔دوسری جانب مرد بھی بعض اوقات نکاح ناموں کے ذریعے اپنی دلہن پر ملازمت نہ کرنے جیسی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔
العجمی کے مطابق، نکاح ناموں کی ایسی شرائط اشارہ ہیں کہ سعودی معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے تاہم ایسی شرائط رشتوں میں دراڑ کا سبب بھی بن رہی ہیں کیونکہ سعودی عرب کے معاشرے میں انہیں شوہر کے لیے تذلیل سمجھا جاتا ہے۔
سعودی میڈیا نے حالیہ برسوں میں طلاقوں کی شرح میں اضافہ رپورٹ کیا ہے۔العجمی نے کہا ہے کہ ماضی میں معاشرہ خواتین کی نہیں سنتا تھا اور کسی بھی معاملے میں شوہر کا فیصلہ حتمی تصور ہوتا تھا لیکن اب شوہر اپنی بیویوں کی امنگوں اور خوابوں کو سن اور پورا کر رہے ہیں۔