نیویارک ۔ تبلیغی جماعت کے نظام الدین میں واقع مرکز میں سینکڑوں افراد کے ایک ساتھ ٹھہرے ہونے کی بات جب سے میڈیا کے سامنے آئی ہے، تبلیغی جماعت اور اقلیتی طبقہ کو نشانہ بناتے ہوئے ایسی خبریں میڈیا میں چلائی جا رہی ہیں جیسے کورونا کو جان بوجھ کر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہندوتوا ذہنیت کے لوگ کورونا وائرس سے لڑائی کو ایک مذہبی لڑائی ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ نظام الدین مرکز اور ہیش ٹیگ تبلیغی جماعت جیسے ہیش ٹیگ لگاتار ٹرینڈ کر رہے ہیں لیکن امریکہ نے اس طرح کے ہیش ٹیگ پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے جیسے کورونا وائرس اقلیتی طبقہ کے لوگوں کے ذریعہ ہی پھیلایا گیا ہے۔ اس طرح کا واقعہ کافی افسوسناک ہے۔ امریکی کے خصوصی سفیر سیموئل براون بیک نے پریس کانفرنس کے دوران اس سلسلے میں امریکہ کی رائے رکھی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ نے گزشتہ کچھ دنوں میں کئی ایسے معاملے دیکھے ہیں جس میں اس بیماری کے لیے اقلیتی طبقہ کو ملزم ٹھہرایا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا پر لگاتار نظر آ رہے اقلیتی طبقہ کو نشانہ بنانے والے ٹرینڈ کو لے کر براون بیک نے کہا کہ اس طرح کے ہیش ٹیگ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس اقلیتی طبقہ کے لوگ جان بوجھ کر پھیلا رہے ہیں۔ اس طرح کی غلط تشہیر کئی علاقوں میں کی جا رہی ہے جو افسوسناک ہے۔ حکومت کو اس پر روک لگانی چاہیے۔
براون بیک نے مزید کہا کہ حکومت کو اس معاملے میں واضح کرنا چاہیے کہ جماعت کے لوگ کورونا کے ذرائع نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ وبا ہے جس سے پوری دنیا نبرد آزما ہے۔ اس کا مذہبی اقلیتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے میں اس طرح کا الزام لگتا دیکھ رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ حکومت اس مسئلہ پر لوگوں سے مخاطب ہوگی اور لوگوں کے سامنے سختی سے اپنی بات رکھے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کی سوچ کہ اقلیتی طبقہ کے لوگ کورونا پھیلا رہے ہیں، فکر انگیز ہے جو ملک کو زبردست نقصان پہنچائے گا۔