Thursday, April 24, 2025
Homesliderتلنگانہ میں لاک ڈاؤن حکومت پردباؤ کا نتیجہ تو نہیں ؟

تلنگانہ میں لاک ڈاؤن حکومت پردباؤ کا نتیجہ تو نہیں ؟

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد۔ تلنگانہ کی عوام اس لئے سکون کی سانس لے رہے تھے کیونکہ چیف منسٹر کے  سی آر ، چیف سکریٹری  سومیش کمار اور وزیر داخلہ محمود علی کی جانب سے متعدد مرتبہ ریاست میں لاک ڈاؤن کے  نفاذ کی تردید ہورہی تھی  لیکن گزشتہ روز اچانک 10 دنوں کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد عوام میں شبہ پایا جارہاہے کہ ریاست میں چند ہزار کورونا کے معاملات پر لاک ڈاؤن  کا نفاذ کے سی آر اور ٹی آر ایس حکومت پر دباؤ کا نتیجہ تو نہیں ہے ؟

متعدد ذرائع کے تجزیوں سے متعدد نتائج اخذ کئے جارہے ہیں کیونکہ کسی کا ماننا ہے کہ ریاست کی ہائی کورٹ کا حکومت سے مسلسل لاک ڈاؤن کے نفاذ ،رات کے کرفیو اور ہفتہ کے آخری ایام کا لاک ڈاؤن (وویک اینڈ کرفیو) کو نافذ کرنے کے ضمن میں مسلسل استفسارکرنا بھی لاک ڈاؤن کی ایک وجہ ہوسکتی ہے جبکہ چند انگریزی اخبارات کے تجزیوں کے یہ نتائج سامنے آتے ہیں کہ ریاست میں جو حالیہ بخار سروے کیا گیا تھا جس میں لاکھوں افراد میں بخار کے علاوہ کورونا وائرس کی علامتیں نوٹ کی گئی تھی اس کے پیش نظر لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں آیا ہے ؟ حالانکہ  حکومت کی جانب سے بخار سروے کے اعداد وشمار جاری نہیں کئے گئے ہیں اور یہ نہیں بتایا گیاہے کہ تلنگانہ میں کتنے لوگ بخار میں مبتلا ہیں؟

لاک ڈاؤن کے معاملے میں اپنے پہلے کے فیصلے سے انحراف میں یہ حقیقت بھی دیکھی جارہی ہے کہ ہندوستان کی دیگر 20 ریاستوں میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی کے سی آر پر تلنگانہ میں لاک ڈاؤن کا دباؤ بنا ہے ۔ اس کے علاوہ جن نکات کو لاک ڈاؤن  سے جوڑا جارہاہے اس میں سرکاری اور خانگی دواخانوں کے ڈاکٹروں اور طبی عملہ پر مسلسل پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کا ایک موقع فراہم کرنا بھی ہے ۔مانا جارہا ہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے بھی حکومت پر دباؤ بن رہا تھا ۔

مصدقہ ذرائع کے بموجب دس دنوں میں لاک ڈاؤن سے عوام کے حمل ونقل کو روکنے میں مدد ملے گی  جس سے اگر کورونا معاملات میں کمی ہوتی ہے تو ڈاکٹروں پر بننے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے گا اور اگر اس کے باوجود معاملات میں کمی نہیں ہوتی ہے تو پھر حکومت کو اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کا موقع ملے گا کہ دیگر ریاستوں میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے باوجود کورونا معاملات میں کمی نہیں  آئی ہے ۔عوام کے غم و غصہ اور ناراضگی سے محفوظ رہنے کےلئے حکومت نے روزآنہ صبح 6 بجے تا 10 بجے تمام مصروفیات کو جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے ریاست کی معیشت کو شدید نقصان سے بچانے کا بھی ایک درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام کی جانب سے بھی حکومت پر تنقید نہ کی جائے ۔