Thursday, April 24, 2025
Homeاقتصادیاتحکومت صرف شور مچاتی رہی اورکالے دھن والے اپنا کام کرگئے

حکومت صرف شور مچاتی رہی اورکالے دھن والے اپنا کام کرگئے

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد  ۔ ہندوستان میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کے جانب سے کالے دھن کے خلاف کی جانے والی بیان بازیوں کے بعد لگتا ہے کہ کالا دھن جمع کرنے والے اور بھی چوکنا ہوچکے ہیں کیونکہ ہندوستانی امیرترین تاجروں اور دیگر افراد کی جانب سے سوئس بینک میں جمع کی جانے والی رقومات میں 2018 میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ بی جے پی نے حکومت بھلے ہی کالے دھن پر قابو پانے کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں کیا ہے لیکن کالے دھن جمع کرنے والے افراد نے مستقبل کے خدشات اور خطرات کو سمجھتے ہوئے سوئس بینک میں اپنی جانب سے جمع کی جانے والی رقومات کو کم کر دیا گیا ہے

ہندستانیوں کی جانب سے سوئس بینک میں جمع کی جانے والی رقومات میں 2018 کے دوران 6 فیصد کمی آئی ہے کیونکہ گزشتہ سال کے دوران سوئس بینک میں ہندوستانیوں کی جانب سے صرف اور صرف 955 ملین سوئس فرانکس ہی جمع کیے گئے جو کہ ہندوستانی روپیہ کے اعتبار سے 6757 کروڑ ہوتے ہیں۔ سوئس بینک کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات اور اعدادوشمار میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ 2018 کے دوران ہندستانیوں کی جانب سے بینک میں جمع کی جانے والی رقومات میں میں قابل ذکر کمی دیکھی گئی ہے ۔ سوئس بینک میں گزشتہ سال ہندوستانی افراد کی جانب سے جمع کی جانے والی جائیدادوں میں کمی کے علاوہ وہ دیگر ممالک کے افراد کی جانب سے بھی اس بینک میں جمع ہونے والی رقومات میں کمی ہوئی ہے۔

 سوئس بینک میں ہندوستانیوں کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کے افراد کی جانب سے جمع کی جانے والی رقومات میں بھی تقریبا چار فیصد کمی آئی ہے لیکن اس کے باوجود 2018 میں سوئس بینک میں دیگر ممالک کی جانب سے 1.4 ٹریلین کرنسی جمع کی گئی ہے جو کہ ہندوستانی روپیہ کے اعتبار سے 99 لاکھ کروڑ ہوتے ہیں یہ اعدادوشمار زیوریخ سے تعلق رکھنے والے نے سینٹرل بینک اتھارٹی آف سوئٹزر لینڈ کی جانب سے جاری کی گئی ہیں ۔ ہندوستان اور سوئٹزرلینڈ کی حکومتوں کے درمیان جو بینک سرگرمیوں کے لیے طریقہ کار موجود ہیں اسے لوکیشن بینکنگ اسٹیٹسٹکس آف بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹ (بی آئی ایس) کہا جاتا ہے اور اس کے ذریعے ہندوستان کے تاجروں کی جانب سے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں میں سرکاری اعداد و شمار کے اعتبار سے جمع کی جانے والی رقومات کی جو تفصیلات جاری کی گئی ہیں اس میں بھی کمی کا انکشاف کیا گیا ہے اور اس میں بھی 11 فیصد تک کی کمی آئی ہے۔

 سوئس بینک میں ہندوستانی کلائنٹس کی جانب سے موجود اکاؤنٹس اور اس میں جمع کیے جانے والے پیسے فنڈ اور دیگر دستاویزات کے خصوص میں ایس این بی نے جو تفصیلات جاری کی گئی ہے اس میں ہندوستان اور سوزرلینڈ کی حکومتوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی تفصیلات میں 11 فیصد کمی جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار میں 4 فیصد کمی کا اظہار کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں ہندوستان میں موجود سوئس بینک کے برانچس میں جو فنڈز اور دیگررقومات جمع کی گئی ہیں اس کی تفصیلات بھی منظر عام پر پیش کی گئی۔ایس این بی کے عہدیداروں کی جانب سے ہندوستانی اور این آر آئیز کی جانب سے سوئس بینکوں میں جو پیسے جمع کیے گئے ہیں ان میں ان پیسوں کی تفصیلات شامل نہیں کی گئی ہیں جو کہ ہندوستانیوں نے دیگر ممالک کی جانب سے یہاں جمع کئے ہیں۔

ہندوستانیوں اور این آر آئیز کی جانب سے سوئس بینک میں پیسے جمع کرنے کا جو رجحان کو گزشتہ دو دہوں کے درمیان دیکھا گیا ہے اس میں پہلی مرتبہ مالی سال یعنی 2018 میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ آخری مرتبہ 1995 میں کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ سوئس بنک کی جانب سے 2018 میں ہندوستانیوں کی جانب سے جمع کی جانے والی رقومات میں جہاں کمی کا انکشاف کیا گیا ہے وہیں اگر گزشتہ سال 2017 میں ہندوستانیوں کی سوئس بنک میں جمع کی جانے والی رقومات کا موازنہ کیا جائے تو یہ نتیجہ باآسانی اخذ کیا جاسکتا ہےکہ حکومت کی کالے دھن کے خلاف سرعام صرف بیان بازیوں سے کالا دھن تو ہندوستان نہیں آیا ہے بلکہ کالا دھن والے ضرور خواب غفلت سے جاگ گئے ہیں۔یہاں اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہے کہ گزشتہ سال کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے سوئس بینکوں میں ہندوستانی رقومات میں ہونے والے 50 جمع فیصد اضافہ پر وزیراعظم نریندر مودی کو طنزوتنقید کا نشانہ بنایا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ہندوستانیوں کی طرف سے جمع کی جانے والی رقومات میں یہ 50 فیصد اضافہ سفید دھن ہے اور کوئی کالادھن نہیں ہے۔

 راہول گاندھی نے سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی رقومات میں اضافہ سے متعلق ایک نیوز رپورٹ منسلک کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا تھا کہ 2014ء میں مودی نے کہا تھا کہ سوئس بینکوں میں جمع شدہ سارا کالادھن وہ ملک واپس لائیں گے اور ہر ایک ہندوستانی کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ روپئے جمع کرائیں گے۔ 2016ء میں مودی نے کہا تھا کہ نوٹ بندی ہندوستان میںکالے دھن کے روک کا علاج کرے گی۔ 2018ء میں مودی نے کہا کہ سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی طرف سے جمع کروائی جانے والی رقومات میں 50 فیصد اضافہ سفید دھن ہے۔ سوئس بینکوں میں کوئی کالادھن نہیں ہے۔

 سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی طرف سے جمع کی جانے والی رقومات میں گذشتہ تین سال کے دوران کمی کے رجحان کے بعد 2017ء کے دوران 50 فیصد یعنی تقریباً 1.01 ارب سوئیس فرینکس (7000 کروڑ روپئے) کا اضافہ ہوا۔ کانگریس نے کالے دھن پر قابو پانے سے متعلق وزیراعظم اور ان کی حکومت کے دعوؤں کی بھی مذمت کی اور کہا کہ یو پی اے حکومت کے دوران سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی طرف سے رکھائی جانے والی رقومات میں کمی ہوئی تھی اور مودی حکومت میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قصہ مختصر کہ کالے دھن پر حکومت صرف بیان بازیاں کرتی رہی تو دوسری جانب کالے دھن کے مالکوں نے اپنا دھن اب سوئس بنک میں بھی جمع کرنا چھوڑدیا ہے۔ حکومت صرف شور مچاتی رہی اورکالے دھن والے اپنا کام کرگئے۔