حیدرآباد: ہفتہ کے روز،متنازعہ قوانین، شہریت ترمیمی ایکٹ (سی ا ے اے)،نیشنل رجسٹر آف سٹیژن (این آر سی)کے خلاف شہر کے اندرا پارک میں منعقدہ ”ملین مارچ“ میں شہر کے مختلف علاقوں سے ہزاروں افراد نے شرکت کی،جن میں نوجوان،بزرگ حضرات،خواتین اور بچے سبھی شامل تھے۔مذ کورہ ملین مارچ جناب مشتاق ملک کی صدارت میں منعقد کیا گیا،اور اس پروگرام کے انعقاد میں ”اے پی اے اور ٹی ایس جے اے سی سمیت 40تنظیمیں شامل تھیں۔
ان میں طلباء،اقلیتیں،دلت اور بائیں بازو کی تنظیمیں شامل تھیں۔ملین مارچ کے موقع پر مجلس بچاؤ تحریک (ایم بی ٹی) کے رہنما امجد اللہ کان نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”آر ایس ایس کے ایجنٹوں اور پولیس ایجنٹوں کی جانب سے پروگرام کی اجازت مسترد کرنے کی افواہوں کے با وجود بھی یہ پروگرام کامیاب ہو گا۔انہوں نے عوام سے کثیر تعداد میں شرکت کی در خواست کی۔
پہلے اس مارچ کے انعقاد کا مقام نیکلس روڈ بتایا گیا تھا،مگر ہفتہ کے روز اس کے مقام کو لو ئر ٹینک بنڈ روڈپر نیکلس روڈ سے اس مارچ کو اندرا پارک دھرنا چوک منتقل کر دیا گیا تھا۔ تلنگانہ اور آندھرا پر دیش (جے اے سی) کی مسلم تنظیم جے اے سی کے وفد نے اس سے قبل نیکلیس روڈ پر 28دسمبر کو ملین مارچ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا،لیکن سنٹرل ایریا پولیس نے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا،جس کے بعد جے اے سی نے تلنگانہ ہائی کورٹ سے رجو ع کیا تھا۔ہائی کورٹ نے تلنگانہ پولیس کو جے اے سی کی درخواست پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت کی تھی۔جس کے بعد پولیس نے دوپہر 2بجے سے شام 5بجے تک اس ملین مارچ کی اجازت دی۔
متعدد تنظیموں /ٹریڈ یونینوں نے مذ کورہ احتجاجی مارچ کی حمایت کی۔تاجروں کو احتجاج میں شرکت کی اجازت دینے کے لئے مار کیٹ یونینوں نے ایک بند کا اعلان کیا۔شہر کے مختلف علاقوں میں اسکولس بند رہے۔اور بڑی تعداد میں مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس مارچ میں شرکت کی۔شہر کے وسط میں واقع اندرا پارک کی سڑ کیں نریندر مودی حکومت کے خلاف ہزاروں مرد و خواتین اور بچے قومی پرچم،بینرز اور پلے کارڈ تھامے نعرے لگا رہے تھے۔کئی لوگوں نے تو صبح سے ہی پنڈال میں جمع ہونا شروع کر دیا تھا۔پولیس نے سیکیوریٹی کے سخت انتظامات کئے تھے۔جمعہ کے روز شہر کے مختلف مساجد میں عوام کو قومی رچم تقسیم کئے گئے۔
پولیس نے شہری مظاہرین کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے دھرنا چوک کے پیچھے واقع این ٹی آر اسٹیڈیم کو کھول دیا تھا۔اور عوام نے کثیر تعداد میں اس مارچ میں شرکت کی دور دور تک انسانوں کے سروں کا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔اس مارچ کے دوران احتجاجی مظاہرین کی جانب سے ”انقلاب زندہ باد“نریندر مودی ڈاؤن ڈاؤن“ جیسے نعرے لگائے گئے۔گھریلو خواتین،بزرگ حضرات سمیت مسلم خواتین بھی بڑی تعداد میں اس مارچ میں شامل ہوئیں۔اس کے علاوہ شہر کے بہت سارے طلباء بھی اپنے اسکول و کالج کو چھوڑ کر اس ملین مارچ میں شرکت کی۔اس کے علاوہ پتھر گٹی (پرانا شہر)،اور عابڈز جیسے بازاروں میں کاروباری افراد نے بھی اس احتجاج میں شامل ہونے کے لئے اپنی دکانیں بند رکھیں۔یہ حیدرآباد میں سی اے اے کے کلاف اب تک کا سب سے بڑا احتجاجی مارچ تھا۔
اس مارچ میں لوگوں کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈس تھے،ان بینروں پر کچھ دلچسپ جملے تحریر تھے مثلاً ”ہم مریں گے،لیکن سی اے اے،این آر سی اور این پی آر قبول نہیں کریں گے“۔”اصل مسائل معیشت،تعلیم اور صحت ہیں،نہ کہ ہندو،مسلم،پاکستان اور این آر سی“۔وغیرہ۔
مارچ میں شریک طالب علم سید ساجد نے کہا ”سی اے اے مسلمانون کے ساتھ امتیازی سلوک ہے،ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔اسی طرخ ایک گھریلوخاتون زہرہ بیگم نے کہا ”سی اے اے واحد مسئلہ نہیں ہے۔حکومت این پی آر شروع کرنے جا رہی ہے،جو این آر سی کی طرف پہلا قدم ہے“۔انہی کی طرح ہزاروں لوگوں نے مختلف تنظیموں کی جانب سے اہتمام کئے گئے ”ملین مارچ“ میں شرکت کی اور متنازعہ قانون سی اے اے،این آر سی،اور این پی آر کے کلاف پر زور احتجاج کیا۔