نئی دہلی ۔عام انتخابات کے نتائج نے ہندوستانی سیاست نقشہ ہی مکمل بدل دیا ہے اور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ حکومت کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت ملک میں باقی نہیں رہی ہے۔ دوسری جانب برسراقتدار حکومت کسی بھی موضوع پر کسی سے نہ تو رائے لینے میں یقین رکھتی ہے اور نہ تبادلہ خیال کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ ایسی صورتحال میں تمام سیاسی پارٹیاں ایک عجیب سیاسی کش مکش کی شکار ہیں۔ ان نتائج کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس بہت خراب دور سے گزر رہی ہے اور کچھ ایسا ہی حال دیگرسیای پارٹیوں کا بھی ہے۔ وہ کہتے بھی ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور اس وقت امریکی تاریخ ہندوستان میں دہرائی جارہی ہے کیونکہ امریکی سابق صدر جارج بش نے 9/11 کے حملہ کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے پہلے دنیا سے کہا تھا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت ہندوستانی سیاست میں ہے کہ یا تو آپ برسراقتدار بی جے پی کے ساتھ ہیں یا پھر خلاف ہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ اب زیادہ تر پارٹیاں فی الحال بی جے پی کے ساتھ کھڑی رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہیں۔
سال 2015 کے اسمبلی انتخابات میں تاریخی کامیابی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو بزدل اور دماغی مریض کہنے والے دہلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال کے بھی تیوراب مکمل بدلے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف اب خود کو ایک بڑا ہندو رہنما دکھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ نریندر مودی کی ہر بات کا استقبال کرتے ہیں۔ کیجریوال سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں یا پھر ان کے سیاسی سفر میں حالات نے ان کا بہت ساتھ دیا جس کی وجہ سے بہت کم وقت میں انہوں نے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر اپنی ایک جگہ بنالی لیکن فی الحال جو ان کے اندر سیاسی تبدیلیاں نظر آئی ہیں اس کی وجہ یا تو مودی کا خوف ہے یا پھر ان کو احساس ہوگیا ہے کہ عوام اس وقت مودی کے خلاف سننے کے حق میں نہیں ہے۔
سال 2015 کی کامیابی کے بعد سے کیجریوال کی مقبولیت میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے، ان کی پارٹی کا ہر انتخابات میں ووٹنگ فیصد کم ہوا ہے۔ جس پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں 54 فیصد ووٹ ملے ہوں اور سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں 33 فیصد ووٹ ملے ہوں، اس پارٹی کو سال 2019 کے عام انتخابات میں صرف 18 فیصد ووٹ ملیں ہیں، جو کانگریس پارٹٰ سے بھی کم تھے،عآپ کو 7 سیٹ میں اس کے تین امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ جن تین امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی اس میں نئی دہلی سیٹ کے امیدوار بھی شامل ہیں، اس حلقہ میں وزیر اعلی اروند کیجریوال کی اسمبلی سیٹ بھی آتی ہے۔ اس سیٹ پر جہاں سرکاری ملازمین ووٹر ہیں وہیں مڈل کلاس کی ایک بڑی تعداد ووٹ کر تی ہے۔ ایسے ہی عام آدمی پارٹی کی سب سے ہائی پروفائل امیدوار آتشی مرلینا جو مشرقی دہلی پارلیمانی سیٹ سے انتخابات لڑ رہی تھیں، ان کے حلقہ میں دہلی کے نائب چیف منسٹر اور حکومت کا چہرہ منیش سسودیا کی اسمبلی سیٹ آتی ہے اور اس پارلیمانی سیٹ پر آتشی تیسرے نمبر پر رہیں۔ یہ نتائج تھوڑا چونکانے والے ضرور ہیں لیکن دہلی میں چونکہ عآپ بر سر اقتدار ہے اور شیلا دکشت کے انتقال کے بعد دہلی کانگریس جن حالات سے گزر رہی ہے اس میں کیجریوال کے لئے سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔
کیجریوال کے اندر یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ صرف غریبوں اور مسلمانوں کے ووٹوں سے ان کی اقتدار میں واپسی ممکن نہیں ہے۔ وہ اس بات کو بھی سمجھ رہے ہیں کہ اقتدار میں واپسی کے لئے انہیں دہلی کے مڈل کلاس ووٹروں اور نوجوانوں کا ووٹ چاہیے، کیونکہ یہ دونوں ووٹ اب ان کے پاس نہیں رہے ہیں۔ کانگریس کے کمزور ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔ کیجریوال ان ووٹر کو واپس لانے کے لئے مودی کے خلاف نہ صرف خاموش ہیں بلکہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں۔ یہ چال کیجریوال کے لئے تباہ کن بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ یہ بھی بہت ممکن ہے کہ مڈل کلاس ووٹر ان کے پاس واپس نہ آئے بلکہ عآپ کا غریب اور مسلم ووٹر ان سے دور جا سکتا ہے۔
موجودہ حالات میں ہندوستان اور دہلی کا ایک بڑا طبق خواہاںہے کہ کانگریس مضبوط ہو اس لئے کہ ان کے مسائل کو اٹھانے والا کوئی تو ہو۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ یہ مان رہا ہے کہ کانگریس ہی ایک ایسی پارٹی ہے جو حکومت سے کسی بھی معاملہ میں سمجھوتہ نہیں کرے گی، اس لئے اس کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ دہلی کانگریس کی قیادت طے ہونے کے بعد اصلی تصویر سامنے آئے گی۔ کانگریس کے کھڑے ہونے کا جتنا عوام کو انتظار ہے اس سے کہیں زیادہ خود کانگریس کے رہنماوں اور کارکنان کو ہے کیونکہ ان کے لئے مرنے جینے کا سوال ہے۔
قوم پرستی اور مودی لہر کی وجہ سے بی جے پی میں بہت زیادہ پراعتماد ہے لیکن وہ زمینی حقائق سے پریشان بھی ہے۔ وہ ملک کے بگڑتے اقتصادی حالات سے جہاں پریشان ہے وہیں ان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری دہلی میں پارٹی کو مضبوط کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ یہ انتخابات لوک سبھا کی طرح مودی کے لئے نہیں ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی کو مضبوط کانگریس کی سخت ضرورت ہے تاکہ ووٹوں کی تقسیم کا ان کو فائدہ ہو سکے۔سال 2015 میں کیجریوال کو عوام کی جو زبردست حمایت حاصل ہوئی تھی اس میں واضح کمی نظر آرہی ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لئے کیجریوال کی جو مودی کے ساتھ کھڑے دکھنے کی کوشش ہے وہ پارٹی کے لئے خودکشی کرنے جیسا ثابت ہو سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں دہلی کی سیاسی شطرنج پر کون کیا بازی چلتا ہے وہ طے کرے گا کہ دہلی میں اگلے سال کس کے ہاتھ میں سیاسی باگ ڈور ہوگی۔ فی الحال کیجریوال نے خود کو مکمل تبدیل کرلیا ہے اور وہ مودی کے خلاف نہیں بلکہ ساتھ کھڑے نظرآنا چاہتے ہیں۔