تہران۔ ایرانی حکومت کے ایک عہدیدار نے پیر کو اس بات کی تردید کی ہے کہ مصنف سلمان رشدی پر حملے میں تہران ملوث تھا۔جمعہ کوملعون رشدی پر حملے کے بعد یہ ایران کی طرف سے جاری ہونے والا پہلا عوامی بیان ہے۔اگرچہ ایران نے ملک کے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے بیرون ملک ایسی کارروائیاں کرنے سے انکار کیا ہے، تاہم کئی استغاثہ اور مغربی حکومتوں نے ایسے حملوں کا الزام تہران پر عائد کیا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ ان کے اور ان کے حامیوں کے علاوہ کسی اور کو امریکہ میں سلمان رشدی پر حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ ایران کو ایسے الزامات لگانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ملعون مصنف 75 سالہ رشدی کو نیو جرسی کے ہادی متر (24) نے جمعہ کو نیویارک میں ایک ثقافتی تقریب کے دوران چاقو سے وار کر کے زخمی کر دیا۔ امریکی حکام نے اس حملے کو ہدفانہ، بلا اشتعال اور اچھی طرح سے منصوبہ بند سازشی حملہ قرار دیا ہے۔
مصنف رشدی کو 30 سال سے زائد عرصے تک اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جب انہوں نے کتاب شیطانی آیات لکھی تھی۔ایران کے مرحوم سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای نے بھی ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں انہیں پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ایک ایرانی فاؤنڈیشن نے مصنف کے لیے 3 ملین ڈالر سے زیادہ کے انعام کا اعلان کیا ہے۔
کنعانیت نے کہا کہ ایران کے پاس اس بارے میں امریکی میڈیا میں رپورٹ ہونے کے علاوہ کوئی اور معلومات نہیں ہے۔کنعانی نے کہا کہ مغرب اسلامی عقائد کی توہین کرنے والوں کے اعمال کی تعریف کرتا ہے جبکہ جارح کی کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے..یہ ایک متضاد رویہ ہے۔
سلمان رشدی پر حملہ میں ایران ملوث نہیں :کنانی
- Advertisement -
- Advertisement -