حیدرآباد ۔ صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد اردو صحافت کے موقف اور صحافیوں کے حالات و مسائیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے اتحاد‘ یکجہتی و سا لمیت کی بقا اور استحکام کے لئے اردو صحافت کا رول آج بھی اہم ہے۔ انہو ں نے کہا ہم ملک کی آزادی کا 75سالہ جشن منا رہے ہیں‘ اور آج جو نئے مسائیل اور چیالنجس درپیش ہیں ان کا موثر طور پر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ آج میڈیا پلس آڈیٹوریم‘ گن فاؤنڈری میں تلنگانہ اردو ورکنگ جرنلسٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام اردو صحافت کے دوسوسال کے سلسلہ میں جشن اردو صحافت۔ چندر سریواستو کے نام سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔
انہو ں نے کہا کہ آزادی کی تحریک میں اردو صحافت نے اہم رول ادا کیا ’لیکن جن لوگ اس لڑائی میں انگلی بھی نہیں کٹوائی وہ آج آزادی کے ہیرو بنے بیٹھے ہیں۔ انہو ں نے کہا فیڈریشن نے ان کو اردو صحافیوں کے مسائیل کے تعلق سے جو یادداشت پیش کی ہے وہ اسے حکومت سے رجوع کرچکے ہیں۔ میڈیا اکیڈیمی کی صدارت کے لئے اردو صحافی کے تقرر کے علاوہ سرکاری زبان کمیشن‘ پبلک سروس کمیشن وغیرہ میں اردو کے نمائندوں کے تقرر کے معاملہ میں بھی انہوں نے چیف منسٹر سے بات کرنے کا تیقن دیا۔ممتاز صحیفہ نگار جناب چندر سریواستو نے کہا کہ ملک میں سکیولرزم‘ فرقہ وارانہ اتحاد و یکجہتی کو شدید خطرہ لاحق ہے‘ اس رجحان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ ملک میں 70فیصد سکیولر مزاج اور انصاف پسند ہیں‘ جنوبی ہند میں فرقہ وارانہ اتحاد و یکجہتی کے لئے بہت ساز گار ہے۔ یہاں فرقہ پرست قوتوں کا داخلہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے طویل صحافی سفر کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کئی اہم واقعات کا ذکر کیا‘ او ر بتایا کہ علیحدہ تلنگانہ کی تحریک سیاسی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ جرنلسٹوں نے شروع کی تھی۔
اس تحریک کے لئے جذبہ انہیں اسمبلی کے کوریج کے دوران ملا جب وقفہ سوالات کے دوران ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ قواعد کے اعتبار سے تلنگانہ کے لئے محفوظ سرکاری جائیدادوں میں سے 33,500جائیدادوں پر آندھرا والوں کا قبضہ ہے‘ اور تلنگانہ کی ترقی کے لئے جو بجٹ مختص کیا گیا ہے اس کا 42فیصد حصہ آندھرا میں خرچ کردیا گیا ہے۔ اس نا انصافی کے خلاف انہو ں نے چند مختص صحافیوں کے ساتھ مل کر جد وجہد شرو ع کی۔ انہوں نے اردو تحریک‘ اس کے پس منظر اور اس کے نتائج کا بھی تفصیلی ذکر کیا اور کہا کہ اردو کو دوسری سرکاری زبان بنایا گیا ہے‘ لیکن یہ بیکار اور غیر فائدہ مند ہے۔ وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی نے ایک پیام روانہ کرتے ہوئے فیڈریشن کو مبارک باد پیش کی‘ اور جناب چندر سریواستو کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہ پیام جناب ریاض احمد خازن فیڈریشن نے پڑھ کر سنایا۔
جناب عامر علی خان نیوز ایڈیٹر سیاست نے کہا کہ اردو زبان کو غیر ضروری طور پر مسلمانوں کی زبان کہا جارہا ہے۔ ملک میں مسلمانوں پر مظالم اور ان کے ساتھ نا انصافیاں بڑھ گئی ہیں‘ جس کے خلاف مسلمانوں کو آواز بلند کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اظہار خیال کی آزادی پر پابندی کا دور ہے۔پہلے اخبارات میں سچ لکھنے پر پابندی لگائی کی گئی‘ جس کے بعد الکٹرانک میڈیا اور سوشیل میڈیا پر بھی تحدیدات عائید کرنے کی کوششیں کی جارہی ہی‘ کیونکہ بیشتر حق پسند صحافیوں نے اخبارات سے قطع تعلق کرتے ہوئے اپنے بلاگ اور یو ٹیوب چینل شروع کرتے ہوئے حقایق کو سامنے لارہے ہیں۔ انہوں نے مرکزی وزارت اطلاعات کی جانب سے دہلی میں طلب کئے گئے اردو صحافیوں کے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہاں اردو صحافیوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ حکومت کے اقدامات کو نمایاں طور پر پیش کریں‘ جس پر انہو ں نے دو ٹوک لہجہ میں کہا کہ حکومت کے تمام اقدامات‘ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے تمام بیانات کو نمایاں اہمیت کے ساتھ شائع کرتے ہیں‘ لیکن ساتھ ہی اردو صحافت کو یہ سوال اٹھانے کا بھی موقعہ دیا جانا چاہئے کہ جس طرح مسلمانوں کے مکانات کو بلڈوزر سے مسمار کیا گیا تو کیا اگنی پتھ اسکیم کے خلاف تشدد کرنے اور ٹرینوں کو نذر آتش کرنے والوں کے گھروں پر بھی بلڈوزر چلایا جائے گا؟
انہو ں نے کہا تمام مظالم کے باوجود مسلمان ہندوستان چھوڑ کر جانے والا نہیں ہے۔ انہو ں نے کہا کہ اردو مادری زبان ہے اور اس کا ماں کی طرح احترام کرنا چاہئے۔ جناب ظفر جاوید سکریٹری سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اردو کے پہلے صحافی ہری دت رائے سے لے کر کل دیپ نیر تک اور یدھ ویر جی سے لے کر رامو جی راؤ تک کی غیر مسلم اردو صحافت سے وابستہ رہے ہیں‘ انہو ں نے سماجی فلاح و بہبود کے کاموں میں اردو صحافت کے رول کو بھی خراج پیش کیا۔ انہوں نے کہا ارباب اقتدار کی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے خلاف ہمت و استقلال کے ساتھ آواز اٹھاتے ہیں‘ اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ جناب کے سرینواس ریڈی صدر انڈین جرنلسٹس یونین نے جناب چندر سریواستو کی دیرینہ خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت وہ صحافت میں داخل ہوئے اس وقت سریواستو صاحب بام عروج پر تھے۔ جب بھی تلنگانہ تحریک کا ذکر ہوتا ہے تو چندر سریواستو صاحب کی یاد آنا لازمی ہے۔ جناب عزیز احمد جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ اعتماد نے جناب چندر سریواستو کی صحافتی و سماجی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ جناب محمد سلیم صدر نشین تلنگانہ اسٹیٹ حج کمیٹی نے جناب چندر سریواستو کے ساتھ اپنی دیرینہ وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کی ترقی‘ ترویج و اشاعت کے لئے متحدہ کاوشوں کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ مسلمانو ں کے لئے اردو زبان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ قرأن کو سمجھنے کے لئے اردو پڑھنا اور سیکھنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر ناصر علی خان اعزازی قونصل جمہوریہ قازقستان نے فیڈریشن کی سرگرمیوں کی ستائش کرتے ہوئے ان کے تعاون کا تیقن دیا اور اردو صحافیوں کے ایک وفد کے دورہ قازقستان کا اہتمام کرنے کا وعد ہ کیا۔ جناب شوکت علی خان نے جناب چندر سریواستو کا تفصیلی تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ تلنگانہ تحریک اور اردو تحریک کے بانی تھے‘ جو تاریخی تحریکیں تھیں‘ لیکن انہو ں نے صحافت سے کوئی مالی فائیدہ نہیں اٹھایا۔ ان کی خدمات کاکوئی صلہ تو نہیں ہوسکتا لیکن حکومت سے نمائندگی کی جائے کہ ان کے نام کم از کم 500گز کا پلاٹ الاٹ کیا جائے۔ جلسہ کا آغاز مفتی قاری زبیر محمود کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ فیڈریشن کے صدر جناب ایم اے ماجد نے خیر مقدم کیا۔ جنرل سکریٹری جناب سید غوث محی الدین نے رپورٹ پیش کی۔ آخر میں جناب محمد امجد علی جوائنٹ سکریٹری نے شکریہ ادا کیا۔ اس موقعہ پر فیڈریشن کے لوگو کی رسم اجرا انجام دی گئی۔ اس موقعہ پر جناب فاضل حسین پرویز ایڈیٹر گواہ‘ جناب اطہر معین ایکزیکٹیو ایڈیٹر روزنامہ منصف‘ جناب فہیم الدین ترک رہنمائے دکن‘ جناب صلاح الدین نیّر ایڈیٹر خوشبو کا سفر‘ ڈاکٹر اشرف علی (ریاض)‘ جناب باسط ابو معاذ (سعودی عرب) اور دیگر معززین موجود تھے۔