حیدرآباد۔خواتین اور لڑکیوں کی جانب سے اپنی کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالنےکے لئے معصوم اور بے قصور مردوں کو عصمت ریزی کے فرضی مقدمات میں پھنسانے کے واقعات تشویش ناک ہے اور اگر حیدرآبادی پولیس سی سی ٹی فوٹیج کا تجزیہ کرتے ہوئے حقائق کا پردہ فاش نہ کرتی تو شاید چند دونوں میں دو مختلف مقدمات میں کئی بےقصور مرد حضرات کو سزا بھی ہوجاتی تھی ۔
نگرانی کرنے والے کیمروں کا نیٹ ورک جو شہر اور نواحی علاقوں کے تقریبا ہر گوشے میں ہے اس نے بہت سے سنسنی خیز معاملات میں پولیس کو نہ صرف اہم سراغ دے رہا ہے بلکہ کچھ جھوٹے اور فرضی مقدمات بے قصور افراد کی رہائی کا سامان بھی مہیا کررہا ہے ۔
سائبر آباد اور راچہ کنڈہ کمشنریٹ کے بالترتیب امین پور اور کیسارا تھانوں میں جن دو معاملات کی اطلاع ملی تھی ، ان میں پولیس نے کئی ایسے افراد کو گرفتار کیا جنھیں جھوٹے مقدمہ میں ملزم قرار دیا کیا گیا تھا اور ان کا جرم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اتفاقی طور پر ان دونوں معاملات میں بے گناہ افراد کو ان لڑکیوں کی جانب سے عائد الزامات کا سامنا کرنا پڑا ،کیونکہ ان لڑکیوں نے وقت پر گھر واپس نہ آنے کے اپنے اصل مقصد کو چھپانے کے لئے بے قصور افراد پر الزامات لگائے۔
الزامات کے حقائق کا پتہ لگانے کے اور ان کی دوبارہ تصدیق کے لئے پولیس نے پہلے کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) تفصیلات کی تصدیق کرنے کے علاوہ موقع کے قریب نصب سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل کی گئی فوٹیج کی جانچ کی اور تکنیکی شواہد پر انحصار کیا جس کے بعد پولیس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان دونوں معاملات میں لڑکیوں کے بیانات جھوٹے تھے۔
ہفتہ کے روز چار آٹو رکشہ ڈرائیوروں کو عصمت ریزی کے مقدمے میں گرفتار کرنے کے بعد الزامات جھوٹے ثابت ہونے پر دو دن کی حراست کے بعد تھانہ کیسارا سے انہیں رہائی ملی کیونکہ ان پر 19 سالہ لڑکی کے اغوا اور اجتماعی عصمت دری کا الزام تھا ۔تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ مبینہ طور پر لڑکی کے گھر والوں سے جھگڑا ہوا تھا اور وہ گھر چھوڑنا چاہتی تھی ۔ جس آٹو میں سوار ہوئی تھی اس کے ڈرائیور سے سفر کے بعد زائد ادائیگی کے معاملے میں لڑکی نے بحث کی تھی لیکن لڑکی نے عصمت ریزی کا الزام عائد کیا۔
تاہم تفصیلی تحقیقات اور تکنیکی شواہد سے ثابت ہوا کہ عصمت ریزی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ لڑکی کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد پولیس نے فوٹیج کی جانچ شروع کردی۔ پولیس نے کہا ہم نے فوٹیج کی تصدیق کی اور سی ڈی آر کی تفصیلات کی جانچ کی تو ہمیں لڑکی کے بیان میں تضاد ملا۔ ایک پولیس عہدیدار نے کہا کہ تحقیقات پرلڑکی نے سچائی کا اعتراف کیا۔
علاوہ جنوری 2020 میں آمین پور میں دو گھروں پر لگائے گئے نگرانی کے کیمروں نے پولیس کو لڑکی کی طرف سے عصمت دری کے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لئے ضروری ثبوت فراہم کرنے میں مدد کی۔ کیمروں نے میا پور کی طرف موٹرسائیکل پر جانے والی لڑکی کی تصاویرقید کیا اور اس ثبوت کے ساتھ پولیس نے اس سے پوچھ گچھ کی اور اس نے اقرار کیا کہ وہ حقیقت میں دوستوں کے ساتھ ایک فلم کو گئی تھی اور گھر والوں کو گمراہ کرنے کے لئے عصمت دری کا ڈراما کیا تھا۔
ایک سینئر عہدیدار نے نشاندہی کی کہ تفتیش کاروں کو محتاط رہنا چاہئے اور بے گناہ افراد کو سزا دینے سے پہلے لگائے گئے الزامات کی جانچ کرنا چاہئے ۔ اسی کے ساتھ ہی انہوں نے کہا عوام کو پولیس کو ذلیل کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے اور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔