رملا۔ایک صدی قدیم اسرائیل فلسطین تنازعہ ایک مرتبہ پھر موضوع بحث ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن اقدام کی تفصیل کی اشاعت کے بعد بعض ماہرین یہ پیش قیاسی کررہے کررہے تھے کہ شاید اس کی وجہ سے تشدد پھوٹ پڑے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ہے ۔دوسری جانب اس کی امید بہت کم ہی ہے کہ اس نئے منصوبہ سے فریقین میں برسوں سے تعطل کا شکار مذاکرات کی بحالی میں کوئی مدد ملے گی۔اس میں وقت لگے گا اور اگر کوئی ایک فریق انکار کر دیتا ہے تو پھر نتیجہ بہت مایوس کن اور مضحکہ خیز بھی ہوسکتا ہے۔
اب وقت کا تقاضہ ہے کہ ایسے امن اقدام پر نظرثانی کی جائے، جس کی مشرقِ اوسط میں واقع ہرعرب ریاست نے حمایت کی تھی اور یہ عرب امن اقدام ہے۔آج جب اسرائیل فلسطین تنازعہ کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، تو ایسے میں عرب امن اقدام فریقین کے درمیان مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے لیے ایک اچھی بنیاد بن سکتا ہے۔تقریباً اٹھارہ سال قبل تب کہ سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود (اب مرحوم) نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں منعقدہ عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے موقع پر امن کے لیے اپنا یہ ویژن پیش کیا تھا۔اس امن منصوبہ کی عرب لیگ کے رکن ممالک نے منظوری دی تھی۔یہ آج بھی مؤثر ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک کسی بھی اسرائیلی حکومت نے سرکاری طور پر اس امن تجویز پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔یہ منصوبہ تنازعہ کا منصفانہ اور قابل قبول حل پیش کرتا ہے اور اس کا مقصد اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایہ ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات استوار کرنا ہے۔اس امن منصوبہ کو منصۂ شہود پر آئے کوئی دودہے ہونے کو آئے ہیں ، اس میں بعض نئی چیزیں شامل کرنے کی ضرورت ہوگی جس کے بعد یہ امن اقدام دوطرفہ مذاکرات کی بحالی کے لیے آج بھی بہترین پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے کیونکہ اسی کو سب سے زیادہ علاقائی حمایت حاصل ہے۔
اگر ٹرمپ انتظامیہ کی صدی کا معاہدہ اپنا نتیجہ دکھانے میں ناکام رہتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟اسرائیل میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جوں کی توں صورت حال کو برقرار رکھا جانا کوئی ایسی بُری چیز بھی نہیں ہے۔ہم اپنی زندگیاں گزارتے ہیں،تشدد کا کوئی بڑا واقعہ بھی رو نما نہیں ہوا ہے، بظاہر دنیا کو خطے کے اس حصے میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت کم دلچسپی نظر آتی ہے۔تاہم ، سچ سے آگے کوئی چیز نہیں ہے اور موقف کو بھی ایک التباس کے سوا کچھ نہیں ہے۔یہاں کشیدگی پہلے ہی بڑھ چکی ہے،اگرچہ اس سے اسرائیل میں اکثریت کی روزمرہ زندگی پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔حالیہ ہفتوں میں زیادہ حملے ہوئے ہیں، مقبوضہ بیت المقدس میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔مایوسی کا شکار ایسے فلسطینی نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اب تنازعہ کے ایک ریاستی حل کی حمایت کررہے ہیں۔
درحقیقت موقف کو ہمیں ماضی قریب کے خطرات کی جانب متوجہ کرتا ہے جب دونوں اقوام اور ان کی قیادت کے درمیان ابلاغ ، تفہیم اور سمجھوتے کا فقدان پایا جاتا تھا۔جب یہودی بستیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور اسرائیلی غرب اردن کے علاقوں کو ریاست میں ضم کرنے میں مصروف ہوں گے تو اس صورت میں مزید فلسطینی دوریاستی حل سے دور ہوتے جائیں گے اور وہ ایسے ایک ریاستی حل کی تجویز کی حمایت کریں گے جس میں وہ اپنے لیے برابر کے سیاسی اور شہری حقوق کے خواہاں ہوں گے۔دونوں متحارب قوموں کو جدا کرنے کے لیے سرحد کی لکیر کھینچنے کا امکان ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوجائے گا۔فطری طور پراس حل کی صورت میں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہی بہت زیادہ خسارے میں رہیں گے اور اس کے مضمرات تو مشرقِ اوسط کے وسیع تر خطے کے لیے بہت ہی خطرناک ہوسکتے ہیں۔اسرائیل کی دفاعی افواج کے سربراہان اور اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی (شین بیت) کے لیڈروں کے مطابق اسرائیل اور غربِ اردن میں صورت حال خراب ہوتی ہے تو اس صورت میں مذاکرات کے لیے حقیقی پیش رفت نہیں ہوسکے گی۔اس سے غربِ اردن اور اردن کے درمیان استحکام پر بھی اثرات مرتب ہوں گے اور اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات کو بھی نقصان پہنچے گا۔
علاقائی ارتباط واتصال کا خواب اور خطے میں امن اور استحکام کے علاوہ تمام علاقائی ممالک کے درمیان ایک طاقتور اتحاد کی تشکیل بھی ایک خواب ہی رہے گا۔فلسطینیوں اورا سرائیلیوں کے درمیان کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوتی ہے تو اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان معمول کے تعلقات بھی استوار نہیں ہوں گے، کوئی مربوط تعلق ہوگا اور نہ تعاون کے لیے کوئی پیش رفت ہوگی۔ہمیں کسی اسٹیٹس کی ضرورت نہیں بلکہ مذاکرات کی بحالی اور اس عمل کے لیے علاقائی حمایت کی ایک معقول اساس کی ضرورت ہے۔عرب امن اقدام ہی یہ بنیاد مہیا کرتا ہے۔
آج ایک واضح ویژن موجود ہے کہ ٹیکنالوجی ، تجارت ، سیاحت اور دفاع کے شعبوں میں اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان کیسے شراکت داری قائم کی جاسکتی ہے۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ فلسطینی ،اسرائیلی تنازعہ کو سب سے مقدم خیال کیا جائے۔اسرائیل میں آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں جو کوئی بھی فاتح بن کر سامنے آتا ہے تو اس کو دو امور پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اول اسرائیل اور فلسطینی حکام کے درمیان تعلقات کو ابتر ہونے سےکیسے روکا جاسکتا ہے؟ اور دوم اسرائیل کے خطے میں تعلقات کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔یہ دونوں معاملے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔عرب امن اقدام کو ان کی کلید ہونا چاہیے۔آج کوئی زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے لیکن کل ہوسکتا ہے کہ کوئی بہت زیادہ تاخیر ہوجائے۔