حیدرآباد ۔نریندر مودی اپنی ہی دنیا میں مست ہیں کیونکہ انہیں مئی 2019 میں پھر سے اقتدار حاصل ہوا حالانکہ انہوں نے اپنی پہلی معیاد میں ملک کی ترقی اور معیشت کو کافی نقصان پہنچایا ، جی ایس ٹی ، بیروزگاری اور زرعی پریشانی جیسی آفات عوام کی جھولی میں ڈالی تھی۔ پچھلے 30 سالوں میں وہ پہلی حکومت ہے جو مکمل اکثریت اور بڑے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی۔ اس ساری خیر سگالی اور عوامی حمایت کو 6 ماہ سے بھی کم عرصے میں انہوں نے پس پسشت ڈالنے کا ایک غیر معمولی کارنامہ کیا ہے۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ اتنے مختصر وقت میں رائے عامہ کی لہر کیسے بدل گئی ہے۔ مودی اور ان کی پارٹی کے لطف اندوز ہونے اور خود میں ہی مگن ہون ہیں اور انہیں اپنی طاقت کا اتنا نشہ ہے کہ بے لگام طاقت کے میں تبدیل ایک فورس بن چکے ہیں ۔
ان کے دوبارہ انتخاب میں شاندار کامیابی کے بعد وہ آپے سے باہر نظر آنے لگے ۔ کئی ایک احمقانہ فیصلوں کے باجود عوام کی اکثریت سے وہ جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے نتائج کا یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے پاس لوگوں کی مکمل حمایت ہے اور انہیں اب یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہندوستان کو زعفرانی رنگنے اور اس کی اقلیتوں کودوسرے درجہ کا شہری بنانے کے لئے اپنے خفیہ ایجنڈے سے اپنے مقاصد کے حصول میں تیزی لاسکتے ہیں۔
طلاق ثلاثہ کے نام پر مسلمان مردوں کو سزا دینے سے لے کر کشمیریوں کی آزادی چھیننے تک ، اور بابری مسجد کی تباہی کو عدالتی اجازت دینے سے لے کر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک آمیز ترمیمی قانون تک ، ایسا لگتا ہے جیسے مودی تاناشاہی کو کوئی بھی نہیں روک سکتا ہے۔مودی اور انکے حمایتی اس گمان میں رہے کہ ان کی من مانیوں کو اب کوئی روکنے والا نہیں ہے کیونکہ اپوزیشن میں اب وہ دم خم نہیں کہ حکومت کے غیر دستوری حرکتوں پر ہی وہ روک لگا سکے لیکن مودی حکومت کا یہ گمان ریت کی عمارت کی طرح ڈھیر ہوگیا جب طلبہ برادری نے جو کہ تعلیمی سرگرمیوں میں مگن تھے لیکن اس طبقہ نے حکومت کے خلاف ایک انقلاب کا نقارہ بجادیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی آواز ہندوستان کی آواز بن چکی ہے۔
بی جے پی اور اس کے دوہرے چہرے کی جوڑی نے اپنے خوابوں میں یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ طلبہ اور نوجوان وہ کام کرنے میں کامیاب ہوجائیں جوکہ اپوزیشن کی جماعتیں بھی ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔اصل میں اپوزیشن کا یہ کام تھا کہ وہ عوام مخالف حکومت کے اقدامات پر روک لگائے لیکن جو کام اپوزیشن نہیں کرپائی وہ کام طلبہ برادری نے کردیکھا۔جیسا کہ لینن کہتا تھا کہ زندگی کسی بھی نظریہ یا منصوبہ سے کہیں زیادہ چالاک ہے۔ یہ غیر متوقع حلقوں سے چیلنجوں کو آگے بڑھاتی ہے اور ایسا ہی کچھ ہندوستان میں ہوا ہے۔کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس بے رحم حکومت نے جس نے اپنی نظریاتی طاقت اور سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ عملی طور پر تمام اختلافات اور مخالفتوں کو کچل دیا ہے ، آزاد میڈیا کو غیر موثر بنا دیا ہے اور تمام ریاستی اداروں کو طاقت سے بے بس کردیا ہے، وہ عام ہندوستانیوں کی طاقت سے عاجز ہوجائے گی!کس نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ خاموش مسلمان سمیت ملک کے دیگر طبقے اچانک حکومت کے خلاف اتنے نڈر اور باہمت قوت میں تبدیل ہوجائیں گے۔
طلبہ ، خواتین اور نوجوانوں کی طرف سے اس طرح کے مظاہرے ، جس نے ہندوستان کے طول وعرص میں تقریباً ڈیڑھ ماہ تک ہلچل مچایا ہے ، پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ سی اے اے، این آر سی ، این پی آر کے کے خلاف یہ احتجاج واقعتا غیر معمولی ہے ان کی جمہوری نوعیت ہے۔ انہوں نے تمام تقسیم اور رکاوٹوں کو پار کیا۔ بی جے پی کے دعووں کے برخلاف وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا گروپ کے ذریعہ منظم نہیں ہیں اور وہ بنیادی طور پر ایک سماج اور ہندوستانی ہیں۔ وہ زیادہ تر لوگوں کی تحریک ، ایک مقبول مزاحمت کی طرح ہیں۔ طلبہ کا یہ احتجاج جو کسی سیاسی لیڈر کی سرپرستی میں نہیں ہے وہ ایک ہندوستان کی سالمیت اور قوم میں اتحاد کا ترجمان ہے ۔سب سے بڑھ کر ، تمام مذہبی اور عقائد کے دائروں سے آزاد ہندوستانیوں اور ایک طاقتور آواز میں یہ احتجاج ہورہا ہے کیونکہ جہاں بی جے پی اور ہندوتوا کے نفرت انگیز ایجنڈے جس نے ہندوستان کو پوری طرح سے مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے طلبہ کا یہ احتجاج اس کے برعکس ہندوستان اور ہندوستانیوں کی آواز بن کر ابھرا ہے ۔
اس تحریک کو جامعہ ملیہ اسلامیہ طلبہ کے ایک گروپ نے شروع کیا (حجاب میں عائشہ رینا اور لدیدہ فرزانہ کی وہ علامتی تصاویر جو یونیفارم میں میں موجود فاشٹ طاقتوں کے خلاف !) لیکن جامعات ،کالجوں اور عام لوگوں نے جامعہ ملیہ اورعلی گڑھ کے طلبہ کے ساتھ مشترکہ مقصد اپنانے کے ساتھ ہی کچھ ہی گھنٹوں میں یہ احتجاج پوری قوم کا مشترکہ نعرہ بن گیا۔