Monday, June 9, 2025
Homeبیناتلڑکیوں کا مادر شکم میں قتل

لڑکیوں کا مادر شکم میں قتل

- Advertisement -
- Advertisement -

جب کوئی قتل کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور وہ خالق کائنات اور مخلوق دونوں کا معتوب ہوتا ہے مگر افسوس کہ آج صرف ہندستان میں تقریباً 10,000 لڑکیوں کا مادر شکم میں ہی قتل کردیا جاتا ہے اور قاتلوں اور قتل میں معاونت کرنے والوں کے خلاف نہ ہی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کوئی اقدام کرتی ہیں اور نہ ہی معاشرہ میں انہیں برا سمجھا جانے لگا ہے۔ آج یہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ آندھرا پردیش میں 2001 کی مردم شماری کے مطابق 0-6 برس کی عمر میں 1000 لڑکوں کے مقابل 961 ہی لڑکیاں رہیں، یہ تناسب مزید گھٹ کر 2011 میں صرف 941 ہی رہ گیا ہے۔ ہندستان کے 80 فیصد اضلاع میں لڑکوں کے مقابل لڑکیوں کی تعداد کم ہے۔ پنجاب کی صورتحال اس قدر بد تر ہے کہ وہاں 1000 لڑکوں کے مقابل صرف 846 لڑکیاں ہیں۔ جب کوئی گناہ کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو وہ گناہ کا جواز بھی تلاش کرلیتا ہے۔ گناہ کے جواز پر اطمینان کے نتیجہ میں اس کو گناہ کے ارتکاب پر ملال نہیں ہوتا۔ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کے زندہ درگور کئے جانے کے واقعات پر جس امہ کے افراد کے رونگھٹے کھڑے ہوجایا کرتے تھے آج مادر شکم کو مقتل گاہ بناتے ہوئے بھی وہ عار محسوس نہیں کرتے۔ اب تک یہ امہ کے ذمہ دار اس بھرم میں ہیں کہ وہ دیگر ابنائے وطن کی طرح مادر شکم میں جنین کی شناخت کرتے ہوئے حمل ضائع کرنے کا ارتکاب کرتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستانی مسلمانوں میں بھی دیگر ابنائے وطن کی ہی طرح مادر شکم میں جنین کی شناخت کرتے ہوئے حمل ضائع کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ اس فعل حرام کے لئے غریب لوگوں نے معاشی بدحالی کو جواز بنالیا ہے تو متوسط اور متمول طبقہ کے لوگوں نے اولاد کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے ضبط تولید کو اختیار کرتے ہوئے خود فریبی کا شکار بننے لگے ہیں۔ دو یا تین اولاد کے بعد خاندانی منصوبہ بندی کے حربے اختیار کرنے والوں کی یہ ترجیح ہوتی ہے کہ انہیں ذکور اولاد ہی زیادہ ہو۔ اگر پہلی اولاد لڑکی ہوجائے تو وہ دوسری اولاد کو اس وقت تک اس دنیا میں آنکھ کھولنے نہیں دیتے تاوقتیکہ انہیں عصری تکنیک کے ذریعہ مادر شکم میں پرورش پانے والے جنین کی جنس کا پتہ نہ چل جائے اور یہ یقین ہوجانے کے بعد کہ مادر شکم میں پرورش پانے والا جنین مذکر ہے تو حمل کو برقرار رکھا جاتا ہے اور اگر یہ پتہ چل جائے کہ مادر شکم میں نمو پانے والا جنین مونث ہے تو حمل کو ضائع کروادیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ اسریٰ میں متنبہ کرتا ہے کہ اپنے بچوں کو غربت کے خدشہ سے ہلاک نہ کریں۔ ہم انہیں اور آپ کو رزق پہنچاتے ہیں۔ انہیں ہلاک کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ مادر شکم میں جنین کی شناخت کرتے ہوئے حمل کا ضائع کرنا قتل کے مترادف ہے۔ اولاد اللہ کی نعمت ہے مگر آج ہم یہ فراموش کرچکے ہیں کہ بہ حیثیت مسلمان ہمیں اللہ کی اس نعمت کو خوشی اور تشکر کے ساتھ قبول کرنا ہوگا۔ اس لئے ایک سچے مسلمان کو لڑکیوں کی پیدائش پر مایوس ہونا نہیں چاہئے۔ جس طرح اسلام اور ملکی قانون کے مطابق کسی شہری کو خود کو ہلاک کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اسی طرح کسی جوڑے کو مادر شکم میں پرورش پانے والے جنین کو ہلاک کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مادر شکم میں ہی جنین کا پتہ چلاتے ہوئے مونث جنین کو ہلاک کرنے کی اصل وجہ معاشرہ میں لڑکیوں کا بوجھ سمجھا جانا ہے۔ یہ لعنت اس لئے بھی پروان چڑھتی جارہی ہے کہ آج کے دور میں نوے فیصد سے زائد زچگیاں بذریعہ سرجری کی جانے لگی ہیں جس کے نتیجہ میں ہر مرتبہ سرجری کے درد و کرب سے بچنے کے لئے دوسری یا تیسری زچگی پر خاندانی منصوبہ بندی کا آپریشن کروادیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کی اکثریت کا یہ ذہن بن چکا ہے کہ ہندستان کی بڑھتی آبادی پر قابو پانے میں وہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اسی لئے وہ اپنے مریضوں کو خاندانی منصوبہ بندی کی نہ صرف ترغیب دیتے ہیں بلکہ ان میں یہ خوف بھی پیدا کردیتے ہیں کہ سرجریز کے باعث دو یا تین سے زائد زچگیوں کے باعث ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اگرچہ حکومت نے ماقبل پیدائش مادر شکم میں جنین کا پتہ چلانے کو جرم قرار دیا ہے اور اس خصوص میں قانون میں 2003 ء ترمیم کرتے ہوئے جنین کی جنس کے بارے میں آگہی دینے والوں کو مستوجب سزاء قرار دیا گیا ہے اس کے باوجود قانون کے نفاذ پر سختی نہ ہونے کے باعث بیشتر ڈائیگناسٹک سنٹرس پیدائش سے قبل ہی جنین کی جنس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں۔ یوں تو اسلام میں حمل کو ضائع کرنا گناہ ہے اور اس کا تقریباً سبھی کو علم بھی ہے اس کے باوجود مختلف بہانوں اور حیلوں کو اپناتے ہوئے جنین کو ہلاک کرنے میں مسلمان دوسروں سے پیچھے نہیں ہیں۔ مولانا عمر زین العابدین نے کہا کہ ضبط تولید کفران نعمت ہے۔ علمائے کرام نے اسقاط حمل کی چند مخصوص حالات میں ہی اجازت دی ہے۔ اگر ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو تب ہی اسقاط حمل کی اجازت ہے ۔ جائیکہ محض اس لئے حمل ساقط کرنا کہ مادر شکم میں پرورش پانے والا جنین مذکر نہیں مونث ہے گناہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی مرحلہ میں حمل کا ضائع کرنے کی اسلام میں ممانعت ہے اور حمل کے مراحل کے ساتھ اس گناہ کی سنگین نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی مراحل میں اسقاط حمل سے گناہ کی نوعیت کم ہوگی مگر جوں جوں مدت گذرتی جائے گی یہ گناہ بڑھتے بڑھتے حرام کے درجہ تک پہنچ جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اگر حمل 120 دنوں سے بڑھ جائے تو حمل کا ضائع کرنا مکمل طور پر منع ہوگا اور یہ قتل کے ہی مترادف ہوگا چونکہ 120 دنوں بعد جنین میں روح پھونک دی جاتی ہے اور کسی ذی روح کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ روح پھونکے جانے تک جنین خون کا اگرچہ ایک لوتھڑا ہی ہے اور اس میں روح پھونکے جانے سے قبل حمل کا ضائع کرنا قتل کے مترادف گناہ میں شامل نہیں ہوگا مگر گناہ کبیرہ میں ہی اس کا شمار ہوگا۔ مولانا عمر زین العابدین نے بتایا کہ شریعت نے مادر شکم میں پرورش پانے والے جنین کے حقوق کی بھی پاسدار کی ہے اور اسلامی اصول کے مطابق اگر کوئی خاتون حاملہ ہے اور اس کا شوہر فوت ہوجائے تو باپ کی وراثت میں اس بچہ کا بھی حق محفوظ رکھا گیا ہے جس نے ہنوز آنکھ نہیں کھولی ہے اور وراثت میں اس بچہ کے حق کو روکا رکھا جاتا ہے اور مابعد پیدائش اس کی جنس کی مطابعت میں وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے۔ شہر کے ایک مسلم انتظامیہ میں پراکٹس کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹرس نے بتایا کہ اکثر ڈاکٹرس اور ڈاییگناسٹک سنٹرس الٹرا ساؤنڈ اسکیاننگ یا Amniocentesis کے ذریعہ جنین کے جنس کا پتہ چل جانے کے باوجود جوڑوں کو آگاہ نہیں کرتے مگر یہ دیکھا گیا کہ لوگ دواخانوں میں کام کرنے والے نیم طبی عملہ یا ڈائیگناسٹک سنٹرس کے ٹیکنیشنس کے ذریعہ جنین کا پتہ چلالیتے ہیں اور پھر ہم سے رجوع ہوتے ہوئے اسقاط حمل کی خواہش کرتے ہیں۔ کچھ خواتین تو گھریلو ٹونٹکے کرتے ہوئے حمل ضائع کردیتے ہیں جو انتہائی پر خطر ہے۔ اگر یہی رجحان جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ازدواجی زندگی کے آغاز کے لئے لڑکیوں کا ملنا دشوار ہوجائے گا اور آج جو لڑکے جہیز کی مانگ کررہے ہیں انہیں لڑکیوں والوں کی مانگیں پوری کرنا ہوگا۔