نئی دہلی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سیاست کی تجریم کو ’’پریشان کن‘‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ سے کہا کہ اس لعنت سے نمٹنے اقدامات وضع کرے۔سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا کہ مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنے والے امیدواروں کو انتخابات میں مقابلہ کرنے سے باز رکھا جائے یا پھر انہیں صرف اسی صورت میں نااہل قرار دیا جب انہیں سزاء ہوجاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ ایک مفاد عامہ کی درخواست کی سماعت کررہی تھی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ کسی فرد کے خلاف عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کئے جانے کے بعد اسے انتخابات میں مقابلہ کرنے سے نااہل قرار دیا جائے۔چیف جسٹس مسٹر جسٹس دیپک مشرا کی زیرقیادت 5 رکنی بنچ نے امیدواروں کو ہدایت دی کہ انتحابات میں مقابلہ کرنے سے قبل الیکشن کمیشن کو اپنے مجرمانہ پس منظر سے آگاہ کرے۔ چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے بدعنوانی کو ’’قومی اقتصادی دہشت گردی‘‘ قرار دیا ۔ عدالت نے سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں سے کہا کہ ہمارے جمہوری نظام میں بڑھتے مجرمانہ واقعات پر روک لگانے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد کم از کم تین مرتبہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ کے بارے میں اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس کے ذریعہ آگاہ کرے۔ عدالت نے کہا کہکہ شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کے ماضی کے بارے میں آگاہ رہے۔ سپریم کورٹ نے سیاسی پارٹیوں کے لئے یہ لازم کردیا کہ اپنی ویب سائٹ پر اپنے امیدواروں کے بارے میں تمام تفصیلات فراہم کرے۔ اس نے یہ بھی ہدایت دی کہ سیاسی امیدواروں کے بارے میں پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں وسیع تر تشہیر کی جائے ۔ فی الوقت سنگین جرائم جیسے قتل، عصمت ریزی اور اغواء کے الزامات میں سزاء پانے والوں کو انتخابات میں مقابلہ کرنے سے باز رکھا گیا ہے۔ مباحث کے دوران اٹارنی جنرل مسٹر کے کے وینوگوپال نے مرکزی حکومت سے نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ قصور وار ثابت ہونے ایک فرد کو معصوم سمجھا جانے کے نظریہ کا حوالہ دیا اور کہا کہ ایک فرد کو ایک پارٹی ٹکٹ پر انتخابات میں مقابلہ کرنے سے محروم کرنا اس کے حق رائے دہی سے انکار ہے جس میں مقابلہ کرنے کا حق بھی شامل ہے۔درخواستوں مرکزی حکومت کی جانب سے مخالفت کرتے ہوئے بیان دیا کہ یہ عدالت کے دائرہ کار میں نہیں ہے کہ وہ نااہلیت کے لئے نئے پیمانے مقرر کرے۔