چھ سال قبل جس کا انتقال ہوچکا ہے اس کے خلاف یوپی پولیس کی نوٹس
لکھنو۔ اتر پردیش میں پولیس کے ظلم اور بے قصور لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کا معاملہ لگاتار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ چہار جانب سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بی جے پی حکومت نے اپنے ایجنڈے کے تحت تمام بے قصور لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن میں سے زیادہ تر اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بہت سے لوگوں کو مظاہرہ کے دوران ہوئے تشدد میں عوامی ملکیت کے نقصان کی بھرپائی کرنے کا قانونی نوٹس بھی بھیجا گیا ہے۔ جن لوگوں کو ایسے نوٹس ملے ہیں ان میں زندہ افراد کے علاوہ ان لوگوں کے نام بھی موجود ہیں جو اس وقت اس دنیا میں ہی نہیں ہیں ،جن افراد کے خلاف نوٹسیں روانہ کی گئی ہیں ان میں سے زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی طرح مزدوری وغیرہ کر کے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
اتر پردیش میں شہریت قانون کے خلاف ہوئے پرتشدد مظاہروں پر پولس کی کارروائی لگاتار جاری ہے اور اب تک کئی لوگوں کے گھروں پر نوٹس بھیجی جا چکی ہے۔ اس درمیان کئی معاملوں میں یو پی پولس کی لاپروائی تو سامنے آ ہی رہی ہے، ان کی بربریت کی خبریں بھی خوب سرخیاں بن رہی ہیں۔ ایک ایسا ہی تازہ معاملہ اتر پردیش کے فیروز آباد پولس کا سامنے آیا ہے جس نے پولس محکمہ کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ دراصل فیروز آباد پولس نے شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ سے ماحول خراب ہونے کے اندیشہ کو دیکھتے ہوئے 200 لوگوں کی شناخت کرتے ہوئے انھیں نوٹس جاری کیا ہے۔ حیرت میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ پولس نے فیروز آباد کے ایک مرحوم شخص کے خلاف بھی نوٹس جاری کر دیا ہے۔
میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق بنّے خان کا انتقال 6 سال قبل ہو چکا ہے اور فیروز آباد پولیس نے ان کے نام سے نوٹس جاری کیا ہے جس کے بعد لوگ پولیس محکمہ کا مذاق بنا رہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے بنّے خان کے نام جاری نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ انھیں سٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اس نوٹس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بنّے خان کو 10 لاکھ روپے کا مچلکہ دے کر ضمانت لینی ہے۔ اس نوٹس کو دیکھ کر بنّے خان کے اہل خانہ میں ہنگامہ کی صورت پیدا ہو گئی اور وہ حیران و پریشان ہو گئے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 20 دسمبر کو شہریت قانون کے خلاف اتر پردیش میں ہو رہے مظاہروں کے دوران تشدد برپا ہو گیا تھا جس کے بعد ایسے 200 لوگوں کی شناخت کی گئی تھی جن سے فیروز آباد کے امن کو خطرہ محسوس کیا گیا۔ انہی 200 لوگوں میں بنّے خان کا نام بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے نام اس فہرست میں شامل ہیں جس نے لوگوں کو حیرانی میں ڈال رکھا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ فہرست میں شامل دو ایسے اشخاص کے نام بھی سامنے آئے ہیں جن کی عمر 90 سال سے زائد ہے۔ ایک شخص کا نام صوفی انصار حسین ہے اور ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ تقریباً 58 سال سے جامع مسجد میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس عمر میں ان کے ذریعہ کسی تشدد کی امید نہیں کی جا سکتی اور پولس کے ذریعہ ان کے نام نوٹس جاری کیے جانے پر لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ اسی طرح 93 سالہ فصاحت میر خان کا نام بھی اس فہرست میں دیکھ کر سبھی ششدر ہیں۔ فصاحت خان کے بارے میں تو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ سماجی کارکن ہیں اور سابق صدر جمہوریہ ہند اے پی جے عبدالکلام سے بھی ان کی ملاقات ہو چکی ہے۔
فصاحت خان کے بیٹے نے اپنے والد کے خلاف نوٹس جاری کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سماجی کارکن کی حیثیت سے فصاحت میر خان کا نام پورے شہر میں مشہور ہے۔ میرے والد کو صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام سے راشٹرپتی بھون میں ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہے اور انھیں پولیس نے جس طرح پابند کیا ہے وہ سمجھ سے بالاترہے۔