حیدرآباد۔ ورزیر اعظم نریندرمودی جو کہ اپنی تقریروں میں ملک ،عوام ،ترقی ،ٹکنالوجی اور نہ جانے کن کن موضوعات میں ہندوستان کو ترقی دلوانے والے پہلے وزیر اعظم کے طور پر خود کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی یہ کوشش ذہن کے دریچوں اڈلف ہٹلراور جرمنی کی تاریخ کے کچھ پہلوں کو روشن کرتے ہیں کیونکہ ہم نے پڑھا تھا کہ ہٹلر اپنے جرمن باشندوں سے کہا کرتاتھا کہ وہ ہی ہے جوکہ جرمنی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے اور وہ ہی جرمنیوں کو نجات دلا سکتا ہے ۔مودی کے بیانات بھی بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کرسکتا اور انکے بغیر ہندوستان محفوظ نہیں ہے حالانکہ ان کے وعدے اور اسکیمات ریت کے قلعے ہی ثابت ہوئے ہیں اور یکے بعد دیگرے ان کی پول کھولتی آرہی ہے۔
مودی نے ہندوستان میں خواتین کو بااختیار بنانے میں کافی بلند وبانگ دعوے کئے ہیں لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ مودی حکومت نے گزشتہ کچھ سال کے دوران کئی اہم معاملوں میں خواتین کے مفاد کو حیرت انگیز طور پر نظر انداز کیا ہے۔ بحرانی کیفیت میں مبتلا خواتین کی باز آبادکاری اور مدد کے لیے ایک اہم منصوبہ سودھر گرہ ہے۔ اس کے لیے سال 17-2016 میں 84 کروڑ روپے مختص ہوئے تھے جسے آئندہ سال کے بجٹ میں صرف 57 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ اسی طرح 19-2018 میں اس منصوبہ کے لئے اصل بجٹ تخمینہ میں 95 کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا تھا، جسے ترمیم شدہ تخمینہ میں 50 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ اس سال تو اصل بجٹ تخمینہ میں صرف 50 کروڑ روپے کا ہی انتظام ہے۔ یعنی گزشتہ سال کے بجٹ تخمینہ کے مقابلے میں یہ 47 فیصد کم ہے۔
اسی طرح خواتین کے لیے ہیلپ لائن جیسے بے حد اہم منصوبہ میں صرف 18 کروڑ روپے کا انتظام ہے۔ جب کہ 17-2016 میں اس منصوبہ پر محض 1 کروڑ روپے خرچ ہوئے، جب کہ اس کے پچھلے سال 15 کروڑ روپے ہی خرچ کیے گئے تھے۔خواتین اور لڑکیوں کی ٹریفکنگ پر قدغن لگانے کی اہمیت بار بار دہرائی جاتی ہے، لیکن یہ صرف تقریروں تک ہی محدود نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبہ (ٹریفکنگ پر قدغن کے مکمل منصوبہ) کے لیے سال 19-2018 میں جو 50 کروڑ روپے مختص ہوئے تھے اسے بعد میں کم کر کے محض 20 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ یعنی 60 فیصد کی تخفیف کی گئی۔ اس سال کے عبوری بجٹ تخمینہ میں اس اہم منصوبہ کے لیے 30 کروڑ روپے مختص ہوئے جو گزشتہ سال کے بجٹ سے 40 فیصد کم ہے۔بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ منصوبہ کے بارے میں مودی حکومت نے خود پارلیمنٹ میں قبول کیا ہے کہ سال 15-2014 کے بعد سے اس منصوبہ کا نصف سے زیادہ بجٹ میڈیا میں تشہیر پر خرچ کیا گیا ہے۔خواتین کی خود مختاری کے قومی مشن (مہیلا شکتی کیندر) کے لیے 19-2018 میں 267 کروڑ روپے مختص کئے گئے لیکن بعد میں تخفیف کر کے ترمیم شدہ تخمینہ میں اسے محض 115 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ اس سال کے عبوری بجٹ میں اس مشن کے لیے بجٹ تخمینہ 150 کروڑ روپے ہے جو گزشتہ سال کے بجٹ تخمینہ میں 267 کروڑ روپے سے کہیں کم ہے۔
ملازمت پیشہ خواتین کے لیے بہت ضروری منصوبہ کریچ اسکیم میں بھی از سر نو تیاری کے دور میں مرکزی حکومت کے بجٹ میں بڑی تخفیف ہوئی ہے۔ اسی طرح پردھان منتری ماتری وندنا منصوبہ کا حکومت نے اشتہار تو خوب کیا ہے، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ان کے لیے 19-2018 کے بجٹ تخمینہ میں 2400 کروڑ روپے مختص ہوئے تھے وہیں سال 19-2018 کے ترمیم شدہ تخمینہ میں اسے محض 1200 کروڑ روپے پر محدود کر دیا گیا، یعنی 50 فیصد کی تخفیف کی گئی۔بیوہ پنشن سے متعلق اہم منصوبہ بھی تخفیف کی نذر ہو گیا۔ سال 15-2014 میں اس کا بجٹ اندازہ 3189 کروڑ روپے تھا جب کہ 20-2019 کے بجٹ اندازے میں اس کے لیے محض 1939 کروڑ روپے کا انتظام ہے۔
یہ تمام حقائق بتاتے ہیں کہ مودی نے جہاں کالے دھن کی واپسی ،ہر ایک ہندوستانی کے کھاتے میں 15 لاکھ جمع کرنے اور اس طرح کئی ایک سبز باغ دیکھاتے ہوئے کروڑہا ہندوستانیوں کو بیو قوف بنایا ہے وہیں انہوں نے خواتین کےلئے متعارف کردہ اسکیمات کی تشہیر تو بہت کی لیکن ان اسکیمات کے بجٹ میں ہر گزرتے سال کے ساتھ کمی کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ بھی بھدا مذاق کیا ہے۔ہر اسکیم کے بدلتے سال کے ناکام ہونے کے ساتھ خواتین کو بااختیار بنانے کے تمام تر دعوے کھوکھلےثابت ہوئے ہیں۔