نئی دہلی ۔ ہندوستان میں 11 اپریل تا 19 مئی تک 7 مراحل میں پارلیمانی انتخابات منعقد ہورہے ہیں لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے لئے دوسری مرتبہ انتخابات میں کامیابی کے راستے میں چند حریف اورمعروف خواتین رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ عوامی سطح پر مقبول اور آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین میں ممتا بنرجی ، مایا وتی اور پرینکا گاندھی وہ نام ہیں جو مودی کےلئے ناکامی کا سبب بن سکتی ہیں۔
2011ءسے مغربی بنگال کی باگ ڈور ممتا بنرجی کے ہاتھوں میں ہے اور وہ عوامی سطح پر انتہائی مقبول بھی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر ریلوے دی دی یعنی بڑی بہن کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کا تعلق آل انڈیا تریمول کانگریس پارٹی سے ہے۔64 سالہ ممتا بنرجی کا نام نریندر مودی کے سخت ترین ناقدین میں شامل ہوتا ہے، وہ حکومت مخالف اتحاد بنانے میں بھی سرگرم رہی ہیں۔ ہندوستانکی ریاست مغربی بنگال کی آبادی جرمنی سے بھی زیادہ ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ممتا بنرجی عوام میں بہت زیادہ مقبول ہیں اور وہ اگر انتخابات میں کامیاب ہوتی ہیں تو حکومت سازی میں ان کا اہم کردار ہوگا۔ اس ریاست میں وزیراعظم مودی کی قوم پرست سیاسی جماعت بی جے پی کو بہتر کاکردگی دکھانی ہوگی۔
مودی کےلئے اہم رکاوٹ میں دوسرا نام مایاوتی کا ہے۔ سابق صوبائی چیف منٹسر اور بھوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی دلت طبقہ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ 63 سالہ مایاوتی ’دلت کوئین‘ یعنی دلتوں کی رانی کے نام سے مشہور ہیں۔ مایاوتی کی جماعت سماج وادی پارٹی سوشلسٹ نظریات والی سیاسی جماعت ہے۔ اتر پردیش ہندوستان میں آبادی کے اعتبار سے 200 ملین شہریوں کے ساتھ سب سے بڑی ریاست ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً اٹھارہ فیصد ہے۔
ناقدین مایاوتی پر اپنی ذاتی خواہشات کے لئے اقدار کا ناجائز فائدہ اٹھانے اور سرکاری خزانے سے خود نمائشی کا الزام لگاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مایاوتی نے 2014 میں مبینہ طور پر ایک سینڈل کی جوڑی منگوانے کے لئے ایک نجی طیارہ امریکہ بھجوایا اور انہوں نے متعدد عوامی پارکس میں اپنے مجسمے بھی بنوائے۔
بعض سیاسی ماہرین کے خیال میں مایاوتی مخلوط حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس مرتبہ مایاوتی کا سیاسی ایجنڈا زیادہ تر بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست پر تنقید کے گرد گھوم رہا ہے۔
مودی کے مسائل میں ایک نیا اضافہ پرینکا گاندھی ہے۔ پرینکا گاندھی واڈرا نے رواں برس جنوری میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ کانگریس کی جانب سے برسوں انہیں عملی سیاست میں حصہ لینے کی مسلسل پیشکش کی جاتی رہی۔ کانگریس کا جنرل سیکرٹری اور مشرقی اترپردیش کا انچارج بنائے جانے کے بعد پہلی مرتبہ پرینکا کے لکھنو میں ہوئے روڈ شو میں پورے صوبے سے لاکھوں افراد شریک ہوئے، جن میں مسلم افراد کی تعداد اوروں کے مقابلے میں زیادہ رہی تھی۔ 47 سالہ پرینکا گاندھی کو خصوصاً اتر پردیش میں کانگریس کی نمائندگی کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے کیونکہ پارلیمنٹ کی کل 543 نشتوں میں سب سے زیادہ 80 نشتیں یو پی میں ہی ہیں۔
وزیر اعظم مودی بھی یو پی کی وارانسی نشست سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ پرینکا گاندھی کے حمایتیوں کی نظر میں پرینکا اپنی دادی اندرا گاندھی کے مزاج سے مشابہت رکھتی ہیں۔ دوسری جانب سیاسی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ پرینکا گاندھی ہندوستان کی 170 ملین مسلمان آبادی کے ساتھ ہندو اکثریت کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ ماضی میں کانگریس کو ہندو اکثریت ووٹرکو نظر انداز کرنے کے حوالے سے بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ خواتین کس طرح مودی کے لئے مسائل پیدا کرتی ہیں۔