Tuesday, October 8, 2024
Homeٹرینڈنگمولانا آزاد کی سیاسی بصیرت اور پیش قیاسیاں آج ہندوستان کی حقیقت

مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت اور پیش قیاسیاں آج ہندوستان کی حقیقت

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ رواں پارلیمانی انتخابات میں پھر ایک مرتبہ ہندوستانی سیاست کے عظیم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کا غیر متوقع داخلہ ہوا ہے حالانکہ ہندوستان کی تاریخ اور سیاست عظیم رہنما اورمفکر مولانا ابوالکلام آزاد کے تذکروں کے بغیر ممکن نہیں لیکن وفات کے کئی برس بعد مولانا ابوالکلام آزاد پر ایک مرتبہ ہندوستانی سیاست میں لیا جانے والا نام ہے یہ دراصل بی جے پی کو چھوڑتے ہوئے کانگریس کا دامن تھامنے والے لیڈر شتروگھن سنہا کی ایک عوامی ریالی میں کی گئ تقریر کے دوران زبان کی لغزش رہی کیونکہ انہوں نے کانگریس کو ہندوستان کی ترقی اور ملک کو مستحکم کرنے میں اہم پارٹی قرار دیتے ہوئے اس کے بانی لیڈروں کے نام گنوائے تھے جس میں مہاتما گاندھی کے ساتھ جواہر لال نہرو سردار ولبھ بھائی پٹیل اور مولانا ابوالکلام آزاد کا نام لینے کے بجائے انہوں نے مسلم لیگ کے بانی اور پاکستان کا نظریہ پیش کرنے والے محمد علی جناح کا نام لے لیا ۔

کانگریس کے لیڈر ہوتے ہوئے شتروگھن سینا نے جیسے ہی مولانا ابوالکلام آزاد کی جگہ محمد علی جناح کا نام لیا برسراقتدار بی جے پی جوکہ ہمیشہ مسلمانوں کے نام پر ہندوستان میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرتی ہے اسے ایک اور سنہری موقع ہاتھ آگیا کہ اس نے شتروگھن سنہا کے بیان کے دوران ہونے والی زبان کی غلطی کو اپنے لئے سود مند ہتھیار  بناتے ہوئے عوام میں یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ کانگریس آغاز سے ہی پاکستان کی حمایتی جماعت ہے حالانکہ اگر ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی زندگی اور آزادی کے لئے کی جانے والی ان کی گراں قدر محنتوں کا مطالعہ کیا جائے تو اندازاہ ہوتا ہے کہ مولانا جیسا حب الوطن اور ہندو مسلم اتحاد کا نظریہ پیش کرنے والا عملی قائد دوسرا شاید کوئی ہوگا ۔ انہوں نے آزادی سے قبل ہی تقسیم ہند کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ہندوستانی قوم کے لیے تباہ کن قرار دینے کی جو پیش قیاسی کی تھی آج 70 برس بعد وہ پیش قیاس ایک بھیانک حقیقت بن کر ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔

 مولانا عبدالکلام آزاد تقسیم ہند کے مخالف تھے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ تقسیم ہند سے مسلمانوں اور ہندوستان کے مسائل ختم نہیں ہوں گے بلکہ یہ مسائل تقسیم کے بعد ہندو مسلم نفرت کی بنیاد پر مزید سنگین ہو جائیں گے ۔ شتروگھن سینا نے حالانکہ بعد میں اعتراف کیا کہ زبان کی لغزش کی وجہ سے انہوں نے محمد علی جناح کا نام لیا حالانکہ ان کا منشا ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابولکلام آزاد کا نام لینا تھا جن کا ہندوستانی سیاست میں اور خاص کر تقسیم ہند کی مخالفت کے ساتھ ملک کو ہونے والے نقصانات کی پیش قیاسی میں جو کردار ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ مولانا ابولکلام آزاد نے اپنی کتاب انڈیا وینس فریڈم میں جو کچھ لکھا ہے وہ تاریخی دستاویزات ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں اور خود ہندوستانی عوام کا یہ المیہ ہے کہ جس سیاسی قائد نے کم عمری میں انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت جیسے اہم عہدے پر فائز ہوتے ہوئے ہندوستان کو ایک متحد ریاست کا نظریہ پیش کیا اور انگریزوں سے آزادی کے بعد ترقی کی سمت تیزی کے ساتھ گامزن ہونے کی جو راہ انہو ں نے بتائی تھی وہ قبول نہیں کی گئی بلکہ آزادی کے بعد متعصب جماعتوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کو ہندوستانی سیاست سے ہیں غائب کردیا حالانکہ ان کے ساتھی جیسے جواہر لال نہرو سردار ولبھ بھائی پٹیل اور سبھاش چندر بوس کو اہمیت دینے کے علاوہ انہیں بی جے پی اور آر ایس کے لوگ ہمیشہ ہی اپنی تقریروں کا موضوع بناتے ہیں لیکن ان سب سے زیادہ دوراندیش ،محب وطن اور ہندوستان کے اتحاد کے ساتھ قومی ترقی کا نظریہ پیش کرنے والے انسانیت دوست لیڈرمولانا  آزاد کو بھلا دیا گیا ۔

مولانا ابولکلام آزاد ہندوستان کے روشن ابواب کا وہ حصہ ہیں جسے متعصب نظریے کے حامل افراد چاہے اپنے اثر رسوخ کا جتنا چاہے استعمال کرتے ہوئے مٹانے کی کوشش کریں یہ آسانی سے مٹنے والا باب نہیں کیونکہ مولانا ابوالکلام آزاد کی جڑیں کرہ ارض کی سب سے مقدس زمین مکہ مکرمہ میں پیوست ہیں اور ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلوانے میں انکی تقریری  اور تحریری کاوش آج دستاویزات کی شکل میں دنیا کے سامنے روشن ستارہ کی طرح محفوظ ہے جس کا انکار اور اس سے فرار اختیار کرنا  ناممکن ہے۔

مولاناابولکلام آزاد 1888 کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے بچپن سے ہی ان میں عظیم ترین قائد کی خوبیاں ظاہر ہونے لگی تھی یہی وجہ ہے کہ 1923میں وہ صرف 35 برس کی عمر میں انڈین نیشنل کانگریس کے نوجوان ترین صدر بنے جس کے بعد جب ہندوستان کو آزادی ملی تو 1947 سے 1952 تک وہ نہرو کی کابینہ میں آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم رہے جن کی کوششوں کی وجہ سے ہندوستان کو آئی آئی ٹی ، اسکول آف پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی جیسے تعلیمی مراکز دستیاب ہوئے ہیں ۔مولانا ابوالکلام آزاد کی ذہانت کے متعلق سروجنی نائیڈو نے کہا تھا کہ انکی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت مولانا ابوالکلام آزاد پیدا ہوئے تھے وہ پچاس برس کے تھے ۔مولانا ابوالکلام آزاد مسلمانوں کے ہی لیڈر نہیں تھے جیسا کہ آج بی جے پی اور آر ایس انہیں مسلمانوں کا لیڈر کا لیبل لگا کر فرقہ پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں بلکل مولانا آزاد ہندوستان اور ہندوستان کی ہر قوم کے لیڈر تھے جس کا اندازہ خود اس  تاریخی حقیقت  سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب 1952میں ہندوستان میں پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات ہو رہے تھے تو اس وقت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے مولانا ابولکلام آزاد سے کہا تھا کہ وہ اتر پردیش کے رام پور علاقے سے انتخابات لڑیں ، جب مولانا نے تجسس سے پوچھا کہ آخر کیوں تو نہرو نے جواب دیا تھا کہ رامپور وہ پارلیمانی حلقہ ہے جہاں مسلمان اکثریت میں موجود ہیں لہذا آپ کی کامیابی یقینی ہوگی ، جس پر مولانا ابولکلام آزاد نے جواہر لال نہرو کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا تھا کہ میں ہندوستان کا لیڈر ہوں نہ کہ مسلمانوں کا ۔

مولانا ابولکلام آزاد نہ صرف تقسیم ہند کے مخالف تھے بلکہ انہوں نے یہ پیش قیاسی  بھی کردی تھی کہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے نام پر جو مشرقی اور مغربی پاکستان تشکیل دیا گیا ہے اس کا اتحاد بھی بہت جلد ٹوٹ جائے گا کیونکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی تہذیب اور زبان الگ ہونے کے علاوہ بہت کچھ ایسا ہے جو ایک دوسرے سے مشترک نہیں ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا آزاد نے جو کئی برس قبل پیش قیاسی کی تھی وہ آج صحیح ثابت ہوچکی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کے نام پر جس پاکستان کی تشکیل ہوئی تھی آج وہ دو حصوں میں ہمارے سامنے پاکستان اور بنگلہ دیش کی شکل میں موجود ہے ۔ مولانا آزاد نے آزادی سے قبل ہی کانگرس اورمسلم لیگ کے درمیان ہندو مسلم مسئلے سے جو تفریق موجود تھی اسے تقسیم ہند کے بعد دو ریاستوں کے درمیان ہونے والے مسئلے کے طور پر پیش قیاسی کی تھی اور یہ پیش قیاسی بھی آج ہمارے سامنے تلخ حقیقت کی شکل میں موجود ہے۔  بی جے پی اور آر ایس ایس جو کہ سردار پٹیل کو ہندوستان کو متحد کرنے کا معمار کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ اصل میں سردار پٹیل ہی ہندوستان کی تقسیم کے 50 فیصد اس وقت ہی حامی ہو چکے تھے جس وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن منظرعام پر بھی نہیں آئے تھے ۔

مولانا ابولکلام آزاد نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ انہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا ہے کہ پٹیل دو ریاستوں کے اتنے زیادہ  حامی ہیں جتنا کے جناح نے دو ریاستوں کی حمایت نہیں کی ۔ مولانا ابولکلام آزاد کہتے ہیں کہ جناح نے یقینا دو ریاستوں کے پرچم کو لہرایا لیکن اس سے زیادہ پٹیل اس قافلے کے پرچم بردار رہے جس نے دو ریاستوں کا نظریہ پیش کیا تھا ۔ مولانا آزاد نے کہا تھا کہ سردار پٹیل ہندوستانی تقسیم اور دو ریاستوں کے نظریے کے بانی ہیں ۔ان تمام حقائق پر بی جے پی اور آر ایس ایس پردہ پوشی کرتے ہوئے ہندوستان ایک قوم کا نظریہ پیش کرنے والے اور اپنی زندگی میں عملی ثبوت دینے والے ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کو آج کے سیاسی منظر سے غائب کرتے ہوئے سردار ولببھائ پٹیل کو متحد ہندوستان کے ہیرو کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، حالانکہ مولانا آزاد وہ لیڈر تھے جنہوں نے اتحاد میں ہندوستان کی ترقی کی پیش قیاسی کی تھی اور خود عملی طور پراس کا ثبوت بھی دیا تھا۔