Monday, June 30, 2025
Homeبین الاقوامینامور شاعر احمد فراز کی دسویں برسی

نامور شاعر احمد فراز کی دسویں برسی

’’ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر‘‘

ہند وپاک کے نامورترقی پسند شاعر ممتازماہر تعلیم و شعر نگاراحمد فرازکو دنیائے فانی سے گذرے 10 برس بیت گئے لیکن ان کی شاعری اب بھی ان کے مداحوں کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔نامورشاعراحمد فراز12 جنوری 1931 کوکوہاٹ میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد شعروشاعری کا آغاز کر دیا، وہ مختلف تعلیمی اداروں میں ماہر تعلیم کے طور پر بھی اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے،انھیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں پابند سلاسل بھی رکھا گیا۔احمد فرازنے ہزاروں نظمیں کہیں اوران کے 14 مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں تنہا تنہا، دردآشوب، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بود لک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ شامل ہیں۔ احمد فرازکی تصانیف کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگو سلاویہ، سویڈش، روسی، جرمنی و پنجابی میں ہوئے۔احمد فرازاردو، فارسی، پنجابی سمیت دیگرزبانوں پربھی مکمل عبوررکھتے تھے، عمرکے آخری ایام میں وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے، احمد فرازنے ہزاروں نظمیں اوردرجنوں مجموعہ کلام بھی تحریر کیے،احمد فراز 25 اگست 2008کو وفات پاگئے تھے۔ احمد فراز نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز طالب علمی کے دور سے کیا اور کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کرچکے ہیں مگر بنیادی طور پر یہ غزل کے شاعر ہیں۔احمد فراز کو ان کے ادبی فن کی وجہ سے متعدد ایوارڈز بھی ملے ہیں۔انہیں ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، نگار ایوارڈز اورہلال پاکستان جیسے باوقار ایوارڈس سے نوازا گیا تھا۔
ان کی کئی غزلوں کو بہت سے گلوکاروں نے گایا ان کی شاعری اور غزلیں آج بھی فلموں ،ڈراموں اور گیتوں میں شامل ہوتی ہیں۔احمد فراز کی مشہور غزلوں میں’’ اب کے بچھڑے‘‘ ،’’سنا ہے لوگ اسے‘‘، ’’پھر اسی راہ گزر پر‘‘، ’’یوں تھے‘‘ سمیت دیگر شامل ہیں۔ احمد فراز کی غزلیں گانے والوں میں پاکستانی گلوکار نورجہاں اور سلمی آغا ہی نہیں بلکہ بھارتی معروف غزل گائیک جگجیت سنگھ بھی شامل ہیں۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کرلو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں
(احمد فراز)