رانچی ۔ جمشید پور کے سرادامونی گرلز اسکول کی نویں جماعت کی طالبہ ریتو مکھی نے 14 اکتوبر کو اسکول سے گھر واپس آنے کے بعد اپنے جسم پر مٹی کا تیل چھڑک کر خود کو آگ لگا لی۔ 21 اکتوبر کو اس کی موت ہو گئی۔ اس واقعہ نے درد ناک حقیقت کو بے نقاب کیا ہے ۔14 سالہ طالبہ کے پسماندگان میں اس کی ماں، سرسوتی مکھی اور اس کے بہن بھائی ہیں۔ وہ فطرتاً پرسکون اور امن پسند لڑکی تھی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ایک سرکاری افسر بننا چاہتی تھی۔ اس کی موت سے اس کے خاندان کی امیدیں اور خواب بھی ختم ہوگئے۔
یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب 14 اکتوبر کو جب اس کی ماں اور بھائی کسی کام سے باہر گئے تو اس نے خود کو آگ لگانے سے پہلے اپنی بہنوں کو پڑوسی کے گھر بھیج دیا۔ جب شعلوں نے شدت اختیار کی تو وہ گلی کی طرف بھاگی اور بے ہوش ہوگئی۔ شور سن کر آس پاس کے لوگ اس کی مدد کے لیے بھاگے اور آگ پر قابو پالیا۔اس سخت قدم کے پیچھے کی وجہ انتہائی چونکا دینے والی ہے۔ پولیس کو دیے گئے بیان میں اس لڑکی نے کہا کہ وہ اپنے ٹرمینل امتحان میں بیٹھ رہی تھی جب انویجیلیٹر چندر داس نے اس پر نقل نویسی کا الزام لگایا۔ داس نے اسے تھپڑ مارا اور اس کے احتجاج کرنے کے بعد بھی اسے چھپے ہوئے نوٹ چیک کرنے کے لیے سب کے سامنے اپنے کپڑے اتارنے پر مجبورکیا۔
متاثرہ لڑکی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ وہ اس واقعہ سے اس قدر شرمندہ ہوئی کہ اس دن اسکول سے گھر واپس آنے کے بعد اس نے انتہائی اقدام کیا۔داس جیل میں بند ہے اور اس نے الزامات کی تردید کی ہے، حالانکہ کلاس میں موجود کئی دیگر طلباء متاثرہ کے الزامات کی تصدیق کررہے ہیں۔ اسکول کی پرنسپل گیتا مہتو کو معطل کردیا گیا ہے۔ اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے چیف منسٹر ہیمنت سورین نے انتظامیہ کو ضروری کارروائی کرنے کی ہدایت دی۔
جب جمشید پور کے ڈپٹی کمشنر وجئے جادھو متاثرہ کی ماں کو تسلی دینے کے لیے پہنچے تو وہ یہ کہتی رہی کہ وہ اپنی بچی کو نہیں بچا سکی۔ اس نے جادھو سے اپنی بیٹی کو انصاف دلانے کی بھی درخواست کی۔یہ واقعہ نظام پر کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ونوبا بھاوے یونیورسٹی، ہزاری باغ کے ایک ریٹائرڈ لیکچرر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر ایس سی شرما نے کہا ہے کہ پہلی نظر میں یہ واقعہ صرف استاد کا قصور لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ پورے تعلیمی نظام اور ہمارے سماجی تانے بانے پر سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبہ نے خود کو تکلیف دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا اور کسی کو اپنے ذہن میں جنگ کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں آنے دیا۔ تعلیمی کیمپس سے اس طرح کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔ ہم ہر واقعہ کے بعد صرف افسوس اور الزام کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ جسمانی سزا کے واقعات پورے نظام پر سوالیہ نشان ہیں، ان کو روکنے کے لیے محض قانون بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ اساتذہ، طلباء، والدین کی مسلسل کونسلنگ کی ضرورت ہے۔
صرف جھارکھنڈ میں ہی حالیہ دنوں میں اسکولوں میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ 27 ستمبر کو گملا ضلع کے سینٹ مائیکل انگلش میڈیم اسکول کے استاد وکاس عرف سیرل کجور نے 13 طلباء کو اس وقت بے دردی سے پیٹا جب انہوں نے ڈانس کرنے سے انکارکیا۔ کئی طلباء زخمی ہوئے اور ان کے ہاتھ پاؤں سوج گئے۔اس واقعہ سے مشتعل لوگوں نے اسکول کے سامنے دھرنا دیا اور احتجاج کیا۔ بالآخر ملزم استاد کو ایف آئی آر درج کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
اسی طرح کا واقعہ 22 ستمبر کو بوکارو میں پیش آیا۔ کسمار بلاک کے ایس ایس ہائی اسکول میں اسکول ٹیچر ونیت کمار جھا نے ایک طالب علم راج کمار مہتو کو بری طرح پیٹا۔ طالب علم کے ہاتھ پر شدید چوٹ آئی۔ احتجاج میں طلباء اور والدین نے اسکول کے باہر مین روڈ بلاک کردی اور ملزم استاد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں پولیس نے سخت کارروائی کی یقین دہانی کراتے ہوئے انہیں منایا۔
ایک اور واقعہ میں 9 ستمبر کو دیوگھر کے ایک خانگی اسکول میں، نویں جماعت کے ایک نابالغ طالب علم کو غیر تدریسی عملے نے مبینہ طور پر مارا پیٹا اور تین گھنٹے تک دھوپ میں کھڑا کیا، جس سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ اسے اس کے گھر لے جایا گیا، جہاں سے اس کے گھر والوں نے اسے دواخانہ میں داخل کرایا۔رانچی ضلع کے اٹکی بلاک میں ماڈرن انگلش اسکول کے دو اساتذہ نے بہن بھائی کو بے دردی سے پیٹا جس کے نتیجے میں ان کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں۔ ان کے والد نے 14 اکتوبر کو اٹکی پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی۔
رینو تیواری، جو تقریباً تین دہائیوں تک رانچی کے ایک نامور اسکول کے پرائمری سیکشن کی انچارج تھیں انہوں نے کہا کہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلباء اور والدین کی مسلسل کونسلنگ کی جانی چاہیے۔ اسکول میں بچوں کے لیے جسمانی سزا یا کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک ان کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے۔یہ اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جہاں بچے محفوظ محسوس کر سکیں۔ طلباء کی بے نظمی کو کنٹرول کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، والدین سے شکایات کی جانی چاہیے اور سنگین معاملات میں ایک عہدہ دیا جانا چاہیے۔ تیواری نے مزید کہا کہ جسمانی سزا کسی بھی طرح مسئلے کا حل نہیں ہے۔