Tuesday, June 10, 2025
Homeخصوصی رپورٹوقف بورڈ نے تبدیلی مذہب کے صداقتناموں کی اجرائی روک دی!

وقف بورڈ نے تبدیلی مذہب کے صداقتناموں کی اجرائی روک دی!

جائیں تو کہاں جائیں؟

اطہر معین

- Advertisement -
- Advertisement -

تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے اچانک تبدیلی مذہب کے صداقتناموں کی اجرائی مسدود کردی ہے جس کے باعث وقف بورڈ سے رجوع ہونے والے نو مسلم افراد کو عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وہ اپنے اہم کاموں کی انجام دہی سے محض اس لئے مفلوج ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس وقف بورڈ کا جاری کردہ صداقتنامہ تبدیلی مذہب موجود نہیں ہے، اس لئے وہ وقف بورڈ میں ایک عہدیدار سے دوسرے عہدیدار کے پاس دوڑتے منت سماجت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وقف بورڈ عرصہ دراز سے ہی جہاں صداقتنامہ نکاح اور صداقتنامہ طلاق و خلع جاری کرتا ہے وہیں وہ تبدیلی مذہب کا بھی صداقتنامہ جاری کرتا ہے اور یہ صداقتنامے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی تسلیم و قبول کئے جاتے ہیں۔ یہ صداقتنامے بہت سے امور میں نہایت ہی کارآمد ثابت ہوتے ہیں خاص کر پاسپورٹ کی تیاری اور کئی ممالک کے فیملی ویزوں کے حصول کے لئے ان صداقتناموں کی پیشکشی ضروری ہوتی ہے۔ صداقتنامہ تبدیلی مذہب نکاح کے لئے بھی ضروری ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مرد یا عورت دوسرے مذہب کو ترک کرکے اسلام قبول کرتے ہیں تو انہیں نکاح اور پاسپورٹ کی تیاری کے لئے وقف بورڈ کے جاری کردہ صداقتنامہ تبدیلی مذہب کی پیشکشی ضروری ہوتی ہے۔ہر سال ایک اندازے کے مطابق تلنگانہ وقف بورڈ کی جانب سے سالانہ تقریباً 500 صداقتنامہ تبدیلی مذہب جاری کئے جاتے ہیں۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ وقف بورڈ یہ صداقتنامے اپنے طور پر تحقیق کرتے ہوئے جاری نہیں کرتا ہے بلکہ قاضیوں کی جانب سے جاری کردہ بک لیٹس اور چند مستند ملی اداروں اور مذہبی شخصیات کی جانب سے جاری کردہ صداقتنامہ تبدیلی مذہب کی اساس پر جاری کرتا ہے۔ اس طرح ان صداقتناموں کی حیثیت صرف توثیقی ہوتی ہے مگر دیگر اہم امور جیسے پاسپورٹ کی تیاری، فیملی ویزے کا حصول اور نکاح کے لئے وقف بورڈ کی جانب سے جاری کئے جانے والے صداقتناموں کا ہی اعتبار کیا جاتا ہے۔وقف بورڈ کی ویب سائٹ پر پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق وقف بورڈ نے جاریہ سال یکم جنوری سے 31 مارچ تک تین ماہ کے عرصہ میں نکاح کے 10,200 ، غیر ملکیوں کو نکاح کے 158 ، طلاق کے 150 ، خلع کے 50 اور تبدیلی مذہب کے 118 بامعاوضہ صداقتنامے جاری کئے ہیں۔

یاد رہے کہ متحدہ آندھرا پردیش میں نکاح، طلاق و خلع اور تبدیلی مذہب کے صداقتناموں کی اجرائی میں یکسانیت پیدا کرنے وقف بورڈ کی تجویز پر محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے ایک سرکاری حکمنامہ جی او ایم ایس نمبر 37 مورخہ 10 نومبر 2002 جاری کیا گیاتھا جس میں کہا گیا ’’ چیف ایکزیکٹیو آفیسر اے پی اسٹیٹ وقف بورڈ کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کے تناظر میں حکومت نے معاملہ کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد نکاح؍طلاق؍تبدیلی مذہب کے صداقتناموں کی اجرائی میں ساری ریاست میں قضاۃ کے ایک یونیفارم سسٹم کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تلنگانہ میں جاری نظام قضاۃ کو آندھرا اور رائلسیما خطوں تک بھی وسعت دی جائے گی۔ چیف ایکزیکٹیو آفیسر اے پی اسٹیٹ وقف بورڈ کو اختیار دیا جاتا ہے کہ تلنگانہ خطہ کے خطوط پر آندھرا اور رائلسیما خطوں میں قاضیوں کو صداقتنامہ نکاح بک لیٹس جاری کئے جائیں۔‘‘اگرچہ یہ جی او دراصل تلنگانہ میں رائج نظام قضاۃ کو آندھرا  و رائلسیما میں بھی رائج و اختیار کرنے کے لئے جاری کیا گیاتھا چونکہ تلنگانہ میں آصف جاہی دور سے ہی بانی جامعہ نظامیہ مولانا انوار اللہ فاروقیؒ کاوضع کردہ ایک جامع نظام قضاۃ چلا آرہا تھا جبکہ آندھرا اور رائلسیما میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا۔
تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے صداقتنامہ تبدیلی مذہب کی اجرائی کی مسدود ی سے متعلق نہ ہی کوئی باضابطہ اعلان کیا ہے اور نہ ہی اس کی وجوہات بتائی ہیں۔ اس خصوص میں جب عہدیداران وقف بورڈ سے ربط پیدا کیا گیا تو صرف اتنا ہی بتایا گیا کہ چیف ایکزیکٹیو آفیسر نے تبدیلی مذہب کے صداقتناموں کی اجرائی مسدود کردینے کا حکم دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس خصوص میں مذکورہ بالا جی او کی روشنی میں ریاستی حکومت سے مزیدوضاحت و صراحت کے بعد ہی جاری کئے جائیں گے۔ سی ای او کے اس اقدام پر منتخبہ بورڈ بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ۔ صدرنشین وقف بورڈ جناب محمد سلیم بھی اس خصوص میں لب کشائی سے گریز کررہے ہیں۔ اس خصوص میں جب تحقیق کی گئی توغیر مصدقہ ذرائع سے پتہ چلا کہ ایک انتہائی بااثرغیر مسلم خاندان کی ایک لڑکی کا تبدیلی مذہب کا صداقتنامہ جاری کیا گیا تھا جس پر یہ معاملہ وقف بورڈ سے رجوع کیا گیا اور وقف بورڈ کی جانب سے اس طرح کے صداقتناموں کی اجرائی کے اختیار کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں جس کی بناء پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بااثر خاندان کسی سیاستداں کا ہے یا کوئی بہت بڑے افسر کا ہے معلوم نہیں ہوسکا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وقف بورڈ نو مسلموں کو صداقتنامہ جاری کرنے سے انکار کردے تو پھر یہ لوگ دیگر اہم دستاویزات کے حصول کے لئے کونسا راستہ اختیار کریں؟ اگر یہ دیکھا جائے کہ کیا وقف بورڈ ،’صداقتنامہ تبدیلی مذہب ‘ کی اجرائی کا مجاز ہے یا نہیں ؟تو جواب یہی ہے کہ قانون وقف کے تحت وقف بورڈ پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح وقف بورڈ میں شعبہ قضاۃ کا قیام اور نکاح؍طلاق؍خلع کے صداقتناموں کی اجرائی وقف بورڈ کے دائرہ کار میں نہیں آتے ہیں۔ اگروقف بورڈ کے دائرہ کار کی بنیاد پر صداقتنامہ تبدیلی مذہب کی اجرائی مسدود کردی گئی ہے تو پھر وقف بورڈ کو شعبۂ قضاۃ کے ساتھ ساتھ نکاح؍طلاق؍خلع کے صداقتناموں کی اجرائی بھی مسدود کردینی چاہئے اور اس ضمن میں کوئی متبادل انتظام کیاجانا چاہئے مگر اچانک صداقتنامہ تبدیلی مذہب کی اجرائی کی مسدودی سے ان نومسلموں کو سخت کرب و آزمائش سے گذرنا پڑرہا ہے جس کا مداوا جلد از جلد کیا جانا چاہئے۔