نئی دہلی ۔ دنیا کے سوپر پاور امریکہ کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے ہر خطے میں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کےلئے حریف اور حلیف ایسے بدلے ہیں جیسے کوئی شہزادی اپنے حسن وآرائش کےلئے لباس اور زیورات بدلتی ہو۔سویت یونین سے سرد جنگ سے لیکر 9/11 کے واقعہ کے بعد طالبان سے جنگ تک کے واقعات میں امریکہ نے ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ اپنے مفادات کے حصول کےلئے ان سے دوریاں اور نزدیکیاں بدلتا رہا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں ہندوستان اور سوویت یونین کے درمیان بہت قربت تھی۔ سرخ آندھی اپنے اطراف کے تمام ممالک کو نگلتے ہوئے جب افغانستان پہنچی تو یہاں کے جنگجو نے اس کے دانت کھٹے کردیئے اور وہیں سے اس کے بکھرنے کی ابتداءہوئی یہاں تک کہ دنیا کے نقشے سے اس کا نام و نشان مٹ گیا اورپورے روس میں لینن اور اسٹالن کے ہزاروں مجسمے مسمار کردیئے گئے۔
اس کے بعد اس وقت ہندوستان کے وزیراعظم نرسمہا راو نے امریکہ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ افغانستان میں امریکہ نے بغضِ سوویت یونین میں دلچسپی لی تھی۔ آگے چل کر اس کی نیت بدل گئی اور وہ افغانستان پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کو چھپانے کے لیے جارج ڈبلیو بش کو ایک اور قربانی کے بکرے کی ضرورت تھی اس لئے اس نے افغانستان پر پنجہ مارا لیکن طالبان اس کے لئے تر نوالہ ثابت نہیں ہوئے۔ جارج ڈبلیوبش نے بہت جلد اندازہ لگا لیا کہ یہاں اپنی دال نہیں گلے گی اس لئے عراق میں صدام حسین کا تختہ پلٹ کر اپنی قوم کو بیوقوف بنایا اور دوبارہ الیکشن جیت لیا۔ یعنی جو کام اس کا سمجھدار باپ نہیں کرسکا وہ بیٹے نے کردکھایا۔ ایسی کی ایک چال ہندوستان میں بی جے پی نے چلی ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے بالا کوٹ کی ہوا بنا کر انتخاب جیتنا کس قدر آزمودہ اور آسان نسخہ تھا۔
اٹل بہاری واجپائی نے بھی20 سال قبل کارگل کا اسی طرح استعمال کیا تھا اور اس وقت صدر بل کلنٹن نے پاکستان کے خلاف ہندوستان کی پشت پناہی کی تھی۔ اس طرح ہند امریکی تعلقات میں ایک نیا موڑ آگیا تھا اور 20 سال بعد کسی امریکی صدر نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا۔ ریپبلکن بش کے زمانے میں سرد مہری رہی لیکن ڈیموکریٹ بارک اوبامہ نے اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی پہلے والی گرمجوشی لوٹ آئی۔ اوبامہ نے پہلے تو عراق سے انخلاءکیا اور اس کے بعد افغانستان سے جان چھڑانے کی خاطر منموہن سنگھ کو وہاں دلچسپی لینے پر آمادہ کیا۔ چین کی گھیرا بندی کے لیے اوبامہ نے ہندوستان کو اہمیت دے کر افغانستان کے پریشانی میں شریک اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ کم کردیا۔
اوبامہ شاید یہ محسوس کرتے تھے کہ ہندوستان کی مدد سے اگر افغانستان کے معاملے کو طول دیا جائے تو کبھی نہ کبھی طالبان تھک کر بیٹھ جائیں گے۔ اس حکمتِ عملی پرکام جاری تھا کہ مودی جی کے ہاتھوں میں ہندوستان کی باگ ڈور آگئی۔ اوبامہ نے نریندر مودی کو غیر معمولی اہمیت دی اورکئی مرتبہ انہیں امریکہ آنے کی دعوت دی نیز خود بھی ایک سے زیادہ مرتبہ ہندوستان کا دورہ کیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پاکستان عالمی سطح پر الگ تھلگ پڑ رہا تھا اور وہ روس کےساتھ قربتیں بڑھانے پرمجبور ہوگیا تھا۔ اس دوران یمن میں فوج کشی سے انکار کرکے نواز شریف نے سعودی عرب اور متحدہ امارات کو ناراض کردیا۔ مودی نے اس کا بھرپور سفارتی فائدہ اٹھایا اور یہ حالت ہوگئی کہ بالا کوٹ حملے کے بعد جب ہندوستان کی شرکت کے خلاف پاکستان نے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو اس کو نظر انداز کرکے سشما سوراج کو اجلاس میں شریک کیا گیا۔
بین الاقوامی سطح پر یہ پاکستانی اثرو رسوخ کے زوال کا انتہائی پستی تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مسلمانوں کی مخالفت نے ہندو احیاءپرستوں کو باغ باغ کردیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف اس کی حمایت زور شور سے کی بلکہ کامیابی کا جشن مناتے ہوئے آرتی تک اتاری گئی۔ یہ بھگت بھول گئے تھے کہ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کی مخالفت کیوں ہورہی ہے ؟ ٹرمپ کا نعرہ سب سے پہلے امریکہ تھا۔ اس نعرے کے ذریعہ وہ سفید فام لوگوں کے دلوں میں بیرونی نژاد امریکیوں کے خلاف نفرت پیدا کرکے ان کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ مسلمانوں کی مانند ہندو مہاجر بھی اس کی مہم کے زد میں آتے تھے۔
کامیابی کے بعد سعودی عرب کو اسلحہ بیچنے کی خاطر ٹرمپ نے مسلمانوں کی مخالفت کم کردی لیکن ہندوستانی مہاجرین کے خلاف اس کے اقدامات جاری رہے۔ آگے چل کر اس نے حکومت ہند کو حاصل خصوصی تجارتی درجہ سے بھی محروم کردیا اور یہاں کی درآمدات پر ٹیکس عائد کردیا۔اب ہوا کا رخ بدل رہا تھا اور امریکہ کی نظرکرم ہندوستان سے ہٹ کر پاکستان کی جانب مبذول ہورہی تھی۔ اس تبدیلی کی دو اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلے تو امریکہ سب سے پہلے کے تحت افغانستان سے پوری طرح نکل جانا چاہتا ہے۔ اپنی پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ امریکہ بتدریج افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلوا رہا ہے۔ گذشتہ 19 برسوں کے دوران امریکہ افغانستان میں لڑائی نہیں بلکہ ایک پولیس عہدیدار کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ اعتراف ہے کہ طالبان ناقابلِ تسخیر ہیں ان کی فتح کو ٹال مٹول سے شکست میں نہیں بدلا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان سے گفتگو کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اسے سنجیدگی سے آگے بڑھایا گیا اور اب تک اس کے سات مراحل مکمل ہوچکے ہیں۔
طالبان سے معاہدہ کے بارے میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی کوششوں سے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر بہتر پیش رفت ہوئی ہے۔ عمران خان نے اس کی تائید میں کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 1500 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور ہمسایہ ملک میں بدامنی کا براہ راست پاکستان پر اثر پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے امن اور استحکام میں پاکستان کو سب سے زیادہ دلچسپی ہے۔ افغانستان کے معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے امریکہ کے نزدیک ہندوستان کے بجائے پاکستان زیادہ اہم ہے۔ اس طرح ٹرمپ اورپاکستان کا مفاد ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوگئے اور عمران خان کو امریکہ کے دورے کی دعوت مل گئی۔ عمران کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک سال پہلے کے مقابلے میں بہت اچھے ہیں اور عمران خان کی وجہ سے مزید بہتر ہوں گے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکی صدرکا سب سے اہم اعلان یہ تھا کہ پاکستان افغان امن کے لیے بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے اوروہ افغانستان میں لاکھوں جانیں بچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں انہیں عمران خان کی قیادت میں بہتر نتائج کے حصول کا پورا اعتماد ہے۔
عمران خان کو خراج پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ نیویارک میں میرے پاکستانی دوست بہت اسمارٹ اور مضبوط ہیں جیسا کہ عمران خان ایک مضبوط لیڈر ہے۔عالمی سیاست پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا حتمی اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ آج سے 20 سال قبل طویل عرصے بعد امریکی صدر بل کلنٹن نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور پاکستان کو پس پشت ڈال کر ہند امریکی تعلقات کے سنہرے دور کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور اٹل بہاری واجپائی کے ہاتھوں میں تھی۔ بیس سال بعد امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کرلی ہے تاکہ ہندوستان کو نظر انداز کرکے پاکستان کے ساتھ پرانے رشتے استوار کرسکیں۔ اِس مرتبہ بھی حکومت بی جے پی کی ہے۔ یہ وقت وقت کی بات ہے کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا وقت اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔