Monday, June 9, 2025
Homeٹرینڈنگکشمیر میں  انٹرنیٹ پر پابندی سے 5 لاکھ افراد بے روزگار ،3...

کشمیر میں  انٹرنیٹ پر پابندی سے 5 لاکھ افراد بے روزگار ،3 ارب ڈالرس کا نقصان

- Advertisement -
- Advertisement -

سری نگر ۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے 5 اگسٹ کو کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کرنے اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے کی وجہ سے کشمیر اور یہاں کے باشندوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ نا قابل بیان ہے اور صرف انٹر نیٹ پر پابندی سے لاکھوں افراد کو اپنا روزگار گنوانا پڑا ہے ۔کشمیر میں گذشتہ سال 5 اگست سے نافذ پابندیوں کے باعث اب تک کاروبار میں دو ارب 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جس میں سب سے زیادہ وہ صنعتیں متاثر ہوئی ہیں جن کی آمدنی کا انحصار انٹرنیٹ پر ہے۔

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر عبدالمجید کے بموجب آج کے دور میں انٹرنیٹ کے بغیر تجارت کرنا ناممکن ہے اور وادی میں انٹرنیٹ پر عائد پابندی کی وجہ سے کروڑہوں نہیں اربوں ڈالرس کا نقصان ہورہا ہے ۔کمشیر چیبمر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک پانچ لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور معیثت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔

عالمی ڈیجیٹل رائٹس گروپ ایکسس ناؤ کے ایشیا پالیسی ڈائریکٹر رامنجیت سنگھ چیما  نے  کہا ہے کہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش کا اثر ذاتی تعلقات سے لے کر طبی سہولیات سب پر ہوا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ دہشت گردی سے بچنے کے لیے پوری آبادی کو سزا دینا ایک غیر معمولی اقدام ہے۔

اس بارے میں وزارتِ اطلاعات کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ واضح رہے کہ گذشتہ سال 5 اگست کو حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی۔ حکومت نے  کہا کہ یہ اقدام جموں و کشمیر کوہندوستان  میں ضم کرنے اور ریاست کی ترقی کے لیے اہم ہے۔‘ تاہم مقامی افراد نے کہا ہے کہ اب تک ترقی کے لحاظ سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔

کشمیر میں ایک کوریئر کمپنی کے باہر کھڑے دو افراد نے میڈیا نمائندے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ نہ ہونے سے ہمیں پیکیج کے آرڈر نہیں آتے۔توصیف احمد نے کہا ہےکہ صرف ہم دونوں اب دفتر آتے ہیں کیونکہ تقریباً 50 لڑکوں کی ملازمت  ختم ہو چکی ہے۔اگر انٹرنیٹ جلد بحال نہیں کیا گیا تو میں بھی اپنی ملازمت  سے ہاتھ دھو سکتا ہوں۔

انٹرنیٹ کی بندش نے کشمیر کی ایک ایسی صنعت کو بھی متاثر کیا ہے جو کئی دہائیوں سے اس خطے کی معیثت کی ریڑھ کی ہڈی مانی جاتی ہے اور وہ شعبہ سیاحت بھی ہے۔ہر سال ہندوستان  بھر سے لوگ برف سے ڈھکے پہاڑوں کا نظارہ کرنے کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔ ڈل جھیل کی کشتیاں بھی لوگوں میں کافی مقبول ہیں۔

تاہم کشمیر شکارا اسوسی ایشن کے صدر بشیر احمد سلطانی نے کہا ہے  اب چار ہزار سے زائد ملاحوں کے لیے کوئی کام ہی نہیں ہے۔محمد شفیع نامی ملاح نے کہا ہے کہ ہم بہت برے وقت سے گزر رہے ہیں۔ ہم میں سے کچھ تو اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی نہیں کر پاتے۔