سری نگر۔ وادی کشمیر میں زائد از ڈھائی ماہ سے تعلیمی سرگرمیاں لگاتار متاثر رہنے کے بعد جہاں ایک طرف انتظامیہ نے کالج سطح تک تعلیمی ادارے کھولنے کے اعلانات کئے تو دوسری طرف خانگی تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کی طرف سے طلبہ کو درس وتدریس کے لئے تعلیمی اداروں میں حاضر ہونے کے بجائے خاص وقت کے دوران نصابی مواد حاصل کرنے کے لئے مقامی اخباروں میں اشتہارات جاری کر نے کا سلسلہ جاری ہے ۔
یادرہے کہ وادی میں گزشتہ زائد از ڈھائی ماہ سے معمولات زندگی بری طرح سے متاثر ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے کالج سطح تک تعلیمی اداروں کے کھولنے کے اعلانات فی الوقت محض اعلانات ہی ثابت ہوئے ہیں کیونکہ تعلیمی اداروں میں عملہ حاضر تو رہتا ہے لیکن طلبا کلاس روموں میں کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔محمد رئیس نامی ایک والد نے کہا کہ میں روزانہ مقامی اخباروں میں اسکول انتظامیہ کی طرف سے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے خاص وقت کے دوران ان کے لئے نصابی مواد حاصل کرنے کے اشتہارات دیکھتا ہوں۔
انہوں نے کہا میں روز جب صبح سویرے اخبار ہاتھ میں لیتا ہوں تو اس میں مختلف خانگی اسکولوں کی طرف سے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے ان کے لئے نصابی مواد حاصل کرنے کے لئے اشتہارات کی بھر مار ہوتی ہے جب کہ انتظامیہ نے اسکول کھولنے کا اعلان کیا ہے اور وہ اشتہارات میں والدین کو مقررہ اسکول اوقات کے بجائے صبح دس بجے تک اسکول پہنچنے کی ہدایات ہوتی ہیں۔ایک معروف خانگی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم مقتدیٰ مہدی نامی ایک طالب علم نے کہا کہ جب انتظامیہ نے اسکول کھولنے کا اعلان کیا تھا تو میں پریشان ہوا لیکن بعد میں جب اگلے روز اپنے اسکول کی طرف سے اشتہار دیکھا جس میں اسکول آنے کے بجائے نصابی مواد حاصل کرنے کو کہا گیا تھا تو میں خوش ہوا کیونکہ کم سے کم اسکول نہیں جانا تھا۔
تاہم شبیر احمد نامی ایک والد نے کہا کہ اسکول انتظامیہ کی طرف سے نصابی مواد تیار کرنا ایک فضول مشق اور روپے اینٹھے کا ایک ذریعہ ہے ۔ انہوں نے کہا تمام تعلیمی ادارے نئے کلاس کے وقت ہی ہر ایک طالب علم کو ایک نصابی کاپی بھی اچھی قیمت پر دیتے ہیں جس میں فائنل امتحان تک نصاب مقرر ہوتا ہے اور اسی کے مطابق امتحان لئے جاتے ہیں یہاں اسکول بند ہوئے تو پھر الگ سے نصابی مواد دینے کی کیا ضرورت ہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے ، میرا ماننا ہے کہ یہ ایک فضول مشق ہی نہیں بلکہ والدین سے پیسے اینٹھنے کا ایک اور ذریعہ ہے ۔
محمد آفاق نامی ایک والد نے کہا کہ اسکول والے نصابی مواد کی کاپیوں کو کافی مہنگے داموں فروخت کرکے مال کماتے ہیں۔انہوں نے کہامیں جب اپنے بچے کے لئے نصابی مواد کی کاپی لانے کے لئے اسکول گیا تو اس کا حجم بہت ہی کم تھا لیکن جب اس کی قیمت بتائی گئی تو اس رقم میں ایک ضخیم کتاب خریدی جاسکتی ہے ۔آفاق احمد نے کہا کہ بچہ جب نئی جماعت میں داخلہ لیتا ہے تو اس وقت بھی ایک نصابی کاپی کتابوں کے ساتھ دی جاتی ہے اور اب اسکول بند ہونے کی صورت میں نصابی مواد دیا جاتا ہے جس کے مقاصد و فوائد کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں۔