سری نگر۔ کٹھوعہ عصمت دری و قتل مقدمہ کے ملزمان کے وکلاءکو شاید اس بات کی اندازہ ہوگیا ہے کہ اس مقدمہ کے بارے میں 10 جون کو آنے والا فیصلہ متاثرہ بچی کے حق میں اور ملزمان کے خلاف ہی آنے والا ہے کیونکہ جہاں ایک طرف یہ وکلاءابھی بھی اس مقدمہ میں سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کی مانگ کررہے ہیں وہیں اس مقدمہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے اس کو فرقہ پرستی کے ساتھ جوڑنے کی سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔ ملزموں میں سے ایک ملزم کے وکیل اور اک جٹ جموں نامی تنظیم کے چیئرمین ایڈوکیٹ انکر شرما اس وحشیانہ اور شرمناک مقدمہ کو ایک سازش سے تعبیر کرکے ہندو فرقے کو عالمی سطح بدنام کرنے کا ایک موثر آلہ قرار دیتے ہیں۔
کہا کہ رسانہ مقدمہ میں سی بی آئی تحقیقات کی مانگ ایک جائز مانگ تھی، کچھ ایسے شواہد سامنے آئے تھے جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کوئی عام قتل نہیں تھا، اس کے پیچھے ایک بہت بڑی سازش تھی جس میں محبوبہ مفتی اور دیگر لوگوں نے ماحول کو خراب کرنے میں اپنا اپنا رول ادا کیا لیکن بدقسمتی سے اُس سازش کے جو الگ الگ پہلو تھے ان کی تحقیقات نہیں کی گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مقدمہ میں منصوبہ بند تحقیقات ہوئی اور اس میں ہندوﺅں کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی سوچ کار فرما تھی۔ ایڈوکیٹ شرما اس مقدمہ کو روشنی ایکٹ سے بھی جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو فرقوں کے خلاف ایک سازش بھی قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں اسٹیٹ اپریٹس اقلیت مخالف ہے ، یہاں کے اقلیتوں فرقوں میں ہندو، سکھ، بودھ اور جین ہیں اور یہاں کی حکومتیں الگ الگ طریقوں سے انہیں نشانہ بناتی ہیں، ملازمتوں میں امتیاز برتا جاتا ہے اور روشنی ایکٹ اور محبوبہ مفتی کا 14 فروری 2018ءکا حکم نامہ جس کے خلاف میں نے پریس کانفرنس کی اور اس کو عوام میں اجاگر کیا، بنایا جاتا ہے ۔انکر شرما کے بموجب کہ اس مقدمہ کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے عدالت میں جو گواہ اور شواہد پیش کئے ہیں اس قدر ٹھوس نہیں ہیں کہ ملزموں کو سزا ملے ، اس مقدمہ میں میڈیا ٹرائل ہوا، سیاسی دخل اندازی بھی ہوئی اور اس کو عالمی سطح پر ہندوﺅں کو بدنام کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔ اس مقدمہ میں مبنی بر حق تحقیقات نہیں ہوئی بلکہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے میں بھی امتیاز برتا گیا۔ اس مقدمہ میں منصفانہ تحقیقات نہیں ہوئی، جہادیوں کی حامی عورت (محبوبہ مفتی) نے اپنے حساب کے مطابق خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی جس نے بے بنیاد شواہد کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن ہماری لڑائی جاری رہے گی۔
ایڈوکیٹ شرما کشمیر کے صحافیوں اور سیاست دانوں پر بھی اس مقدمہ کو ہندوﺅں کے خلاف استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمہ کو کشمیر کے صحافیوں اور سیاست دانوں نے بھی استعمال کیا جس کا مقصد ہندوﺅں، ڈوگروں اور ملک کو بدنام کرنا تھا اور سوچ یہ تھی کہ جموں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس مقدمہ کو استعمال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جموں کو اسلامئز کیا جائے اور یہاں کے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جائے ۔ انکر شرما کے بموجب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ 10 تاریخ کو جج صاحب کیا فیصلہ سنائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ اگر شواہد کا تنقیدی طور جائزہ لیا جائے گا تو ملزمان بری ہوں گے اور ہمیں یہ بھی امید ہے کہ حکومت اس کو سیاسی نظریے سے بھی دیکھے گی۔ اگر مقدمہ میں کچھ اوپر نیچے ہوا تو ان کے لئے اپیل کا راستہ کھلا ہے ۔
ملزمان کے ایک اور وکیل اے کے ساونی بھی مقدمہ کی سی بی آئی سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں کہا بحیثیت ڈیفنس کونسل جو اعتماد ہوتا وہ ہمیں شروع سے ہی رہا کہ یہ بے قصور لوگ تھے ، بہت اچھا ہوتا اگر سی بی آئی تحقیقات ہوتی تو اصلی قصوروار پکڑے جاتے ، یہ مقدمہ تاہم متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا کو مقدمہ میں تعاون کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ملزمان کو سزائیں ملنا صد فیصد طے ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاوں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، اسے 10 جنوری 2018ءکو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاوں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور نقل مکانی پر مجبورکرنا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔
سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018ءکو کٹھوعہ مقدمہ کی جانچ سی بی آئی سے کروانے سے انکار کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بینچ نے یہ حکم سنایا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے22 مئی 2018ءکوکٹھوعہ عصمت دری و قتل مقدمہ کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیے تھے ۔ سپریم کورٹ کے حکم پر31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں مقدمہ کی ان کیمرہ اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی۔
مقدمہ کے ملزمان میں واقعہ کے سرغنہ اور مندر کے نگران سانجی رام، اس کا بیٹا وشال کمار، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندرشامل ہیں۔