الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کےلئے اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے بعد ایک جانب برسراقتداربی جے پی اور اقتدار میں واپسی کی خواہاں کانگریس ہر کوئی اپنی اپنی حکمت علمی کو منظر عام پر لادیا۔ نریندرمودی ان دنوں سوشل میڈیاپر اپنے وزرائ،بھگتوں اور زعفرانی ذہن رکھنے والوں کو ”چوکیدار“ بنانے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب کانگریس نے رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرنے کےلئے ٹرمپ کارڈ پرینکا گاندھی کی مصروفیات بڑھا دیں ہیں۔
ہندوستان میں جو عوام آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندتوا ایجنڈے سے نالاں ہیں انہیں پرینکا گاندھی امید کی ایک کرن دیکھائی دے رہی ہیں ۔ملک کے سیکولر عوام کو پرینکا میں سابق وزیر اعظم انداگاندھی کی جھلک دکھائی دے رہی ہے اور انہیں امید ہے کہ پرینکا ان کےلئے کامیابی شہنائی بجائیں گی۔ پرینکا گاندھی کی موجودگی کے تناظر میں اگر کانگریس کی انتخابی حکمت عملی کا تجریہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس نے آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لئے نہ صرف اپنی حکمت عملی تیار کر ہی لی بلکہ پرینکا کو ٹرمپ کارڈ کی طرح استعمال کرنے کا فیصلے کےا ہے ۔
اس کے تحت پرینکا گاندھی عوام کے روزمرہ کے ان مسائل کو اٹھاتے ہوئے مودی حکومت کو تنقیدکا نشانہ بنائیں گی اور انہوں نے اپنے ابتدائی جلسوں میں مودی اور حکومت پر راست تنقیدیں کرنے کےلئے علاوہ زعفرانی جماعتوں اور ان کے حامیوں سے ملک کو ہونے والے نقصانات کو بھی اپنی تقریروں کا حصہ بنایا ہے۔کانگریس کی حکمت عملی کا دوسرا رخ صدر کانگریس راہول گاندھی کے موضوعات ہیں جن میں وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کو رافیل بدعنوانی، قندھارجا کر دہشت گردوں کو چھوڑنا اور قومی تحفظ جیسے دوسرے موضوعات پر اپنی توانائی صرف کررہے ہیں ۔کانگریس امید کر رہی ہے کہ پرینکا گاندھی کا لب و لہجہ اندرا گاندھی سے ان کی مماثلت اور روانی سے ہندی میں تقریرکرنا پارٹی کو شاید وہ مقام دلا سکتا ہے جس کا وہ پچھلے پانچ برسوں سے انتظارکر رہی ہے۔ معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی، آپسی اتحاد اوراستحکام کسی بھی ملک کی ترقی کےلئے کلید ہوتے ہیں اور ہندوستان کو بھی فی الحال ان ہی مسائل کا سامنا ہے۔سیاست میں باضابطہ قدم رکھنے کے بعد پہلی پہلی احمدآباد میں پرینکا نے ملک میں بڑھتی بے روزگاری، خواتین کا تحفظ اورکسانوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے مودی حکومت کی کارکردگی پر نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ انہوں نے این ڈی اے والوں پر ملک میں نفرت پھیلانے کا الزام بھی لگایا۔
کانگریس کا خیال ہے کہ اس طرح کے موضوعات سے پرینکا اپنے پہلے امتحان گاہ اترپردیش کے رائے دہندگان کو متاثر کرنے میں کامیاب رہیں گی۔ گزشتہ 15 سال کانگریس کے لئے پرینکا کے تناظر میں بھی کسی فلمی کہانی سے کم نہیں کیونکہ جنوری 2004 میں جب سونیا گاندھی اس وقت اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت سے محاذ آرائی میں مصروف تھیں توکانگریس نے اپنی حکمت عملی طے کرنے کے لئے ایک سروے کروایا تھا۔ اس سروے نے واضح کیا تھا کہ اگر سونیا گاندھی کے ساتھ پرینکا اور راہول گاندھی پوری توانائی کے ساتھ انتخابی مہم چلاتے ہیں تو 14ویں لوک سبھا کے نتائج اس سے مختلف ہوسکتے ہیں جیسے کہ اس وقت آثار نظر آ رہے تھے۔ اصل میں یہ وہ وقت تھا جب واجپائی کی شخصیت کے سائے تلے این ڈی اے کا ستارہ عروج پر تھا۔ شائننگ انڈیا مہم کا ہر سو چرچہ تھا۔ ہندوستان کے پڑوسی ریاست پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے تھے، معاشی ترقی کا دور دورہ تھا اورکئی میگا پروجیکٹس جیسے سنہری چہار رخی شاہراہ بہت تیزی سے چل رہے تھے۔
اس سروے کے نتائج پر سونیا گاندھی کی رہائش گاہ 10 جن پتھ میں سونیا، راہول اور پرینکا نے بہت گہرائی سے غوروخوض کیا۔ طویل اور اہم اجلاس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ راہول کو میدان سیاست میں قدم رکھنا چاہیے لیکن پرینکا نے اس وقت سیاست میں آنے سے پرہیزکیا تھا جس کی ان کے پاس بہت مناسب وجہ تھی کہ ان کے دو بچوں ریحان اورمیریا کی پرورش تھی اور پرینکا اپنا مکمل وقت اور توجہ بچوں کی پرورش پر مرکوز کرچکی تھیںلیکن عشائیہ سے قبل جب یہ مذاکرات ختم ہوئے تو پرینکا نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور جب بھی حالات کا تقاضہ ہوا، سیاست میں کود پڑیں گی اور آج 15 سال بعد وہ ہندوستانی سیاست کی ایک سرگرم رکن بن چکی ہیں جن پر ہندوستانی کروڑہا عوام کی نظریں مرکوز ہوچکی ہیں۔اب 15 سال بعد پرینکا اس سے متفق ہیں کہ آج کی صورتحال ان کے سیاست میں سرگرم ہونے کی متقاضی ہے۔
وہ سیاست میں نہ صرف کود پڑیں ہیں بلکہ اپنے بھائی کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر مخالفین کو شکست دینے میں جٹ گئیں ہیں۔ ان سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لئے کافی ہیں۔ انہیں ایک فطری لیڈر مانا جاتا ہے۔ ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج اسے سخت ضرورت ہے۔ اندراگاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر، خصوصاً نوجوانوں کو متاثر ومتحرک کرنے کی صلاحیت، اس کے علاوہ ایک مشفق ماں، ذمہ داراورحوصلہ مند شریک حیات ہونے کے ساتھ ایسی شخصیت جوسدا اپنے خاندان کے ساتھ کھڑی ہےں۔ پرینکا گاندھی کی یہ خوبیاں انہیں ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے سبھی کی امیدیں وابستہ ہونے کی اپنے آپ میں بڑی اہمیت ہے۔ پرینکا کی ان ہی خوبیوں کی وجہ سے یہ طے کیا گیا کہ انہیں 21 ویں صدی کی لیڈر کے طور پر پیش کیا جائے۔ ایسی لیڈر جواسمارٹ، پر کشش، اپنی تمام ذمہ داریاں بخوبی نبھانے والی اورمخالفین کو بے باکی سے بھرپورجواب دینے والی ہو۔ کانگریس کا منصوبہ ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کسی طرح 125 نشتوں پر کامیابی کی مہر ثبت کرے جس سے دہلی میں حکومت بناتے وقت انہیں مناسب جگہ ملے اور نئی حکومت میں کم ازکم وزارت داخلہ، دفاع اور فائنانس ان ہی کے پاس رہیں۔ کانگریس کو اقتدار پر واپس لانے کےلئے جہاں پرنیکا نے عوامی مسائل اورحکومت کی ناکامیوں کو بیرونی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا ہے وہیں اپنی جماعت کو اندرونی طور پر مضبوط بنانے کے لئے کئی ریاستوں میں چھوٹے لیکن اہم شخصیتوں کو اپنا حمایتی بنانے کا فارمولا بھی اختیار کرلیا ہے جس کی ایک مثال اترپردیش میں ابھر رہے بھیم آرمی کے صدر نوجوان دلت لیڈر چندرشیکھر سے ملاقات ہے۔ اب پرینکا گاندھی کے سامنے اہم کام یہی ہے کہ وہ انہیں ملنے والی مقبولیت ، اہمیت اور ان سے وابستہ جذبات کو ووٹ میں بدل دیں ۔متوسط طبقہ کے عوام، اونچی ذات والوں،خواتین اور نوجوانوں کوکانگریس کی طرف راغب کر ے۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن حقائق بہت مشکل ہوسکتے ہیں۔