Tuesday, June 10, 2025
Homeٹرینڈنگہندستان کے تین متمول مسلمان

ہندستان کے تین متمول مسلمان

- Advertisement -
- Advertisement -

ہندستان کے تین متمول مسلمان
حیدرآباد۔ ہندستان میں مسلمانوں کی آبادی زائد از 13 فیصد ہے مگر ترقی کے معاملہ میں مسلمانوں کی شرح کسی بھی شعبہ ہائے حیات میں ان کی آبادی کے متناسب نہیں ہے۔تعلیم ہو یا صنعت و حرفت مسلمان اپنے ابنائے وطن سے بہت پیچھے ہیں۔ جہاں تک متمول ترین ہندستانیوں کی درجہ بندی کا تعلق ہے ، دولت کے اعتبار سے 100 ہندستانیوں میں صرف تین مسلمان ہی جگہ بنا پائے ہیں۔ دنیا بھر میں دولت کے اعتبار سے درجہ بندی کرنے والے میگزین ’’فوربس ‘‘ Forbes نے سال 2017 کے امیرترین افراد کی فہرست جاری کی ہے۔ 100 متمول ہندستانیوں میں سر فہرست مکیش امبانی ہیں جبکہ تین مسلمانوں میں عظیم پریم جی صدرنشین ویپرو، ایم اے یوسف علی منیجئنگ ڈائرکٹر لولو گروپ انٹر نیشنل اور یوسف حمید نان ایکزیکیٹیو چیرمین سِپلا شامل ہیں۔ ان تین متمول مسلمانوں کا مختصر سا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

عظیم پریم جی (Wipro ): 

عظیم ہاشم پریم جی صدرنشین ویپر و لمیٹیڈ ، ریلائنس گروپ کے مکیش بھائی امبانی کے بعد ہندستان کے دوسرے متمول ترین شہری ہیں۔ جاریہ سال ان کی دولت کا ااندازہ 17.7 بلین ڈالر کیا گیا ہے جبکہ 2017 میں وہ 19 بلین ڈالر کے مالک تھے۔ عالمی اعتبار سے دنیا کے متمول ترین افراد کی فہرست میں ان کا نمبر 58 واں ہے۔ 72 سالہ عظیم ہاشم پریم جی کو حکومت ہند نے پدم پھوشن سے بھی نوازا ہے۔ عظیم پریم جی بہت مخیر واقع ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی کمپنی کے 39% حصص اپنے خاندان ٹرسٹ کو دے دی ہے۔ اس طرح ان کی آمدنی کا قابل لحاظ حصہ خیراتی کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ عظیم پریم جی نے 24 جولائی 1945 کو ممبئی میں ایک نظاری اسمعٰیلی شیعہ خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد جب جناح نے عظیم پریم جی کے والد محمد ہاشم پریم جی کو پاکستان منتقل ہوجانے کی دعوت دی تھی انہوں نے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا اور ہندستان میں ہی رہنا پسند کیا۔

ایم اے یوسف علی(Lulu Group ) :

یوسف علی مسلّمان ویٹّل عبدالقادر ’لولو گروپ انٹرنیشنل‘ کے بانی و منیجئنگ ڈائرکٹر ہیں، جن کا کاروبار یوں تو دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے مگر مشرق وسطیٰ میں لولو ہائپر مارکٹ ایک جانا پہچانا نام ہے۔ یوسف علی ایم اے، 4.2 بلین ڈالر کی دولت کے ساتھ ہندستان کے 27 ویں دولت مند شہر ی ہیں ۔ عالمی سطح پر ان کامقام 388 واں مقام ہے۔ یوسف علی 15 نومبر 1955کیرالا کے تھیسور ضلع کے نٹّیکا موضع میں پیدا ہوئے، جہاں تعلیم پانے کے بعد وہ گجرات منتقل ہوگئے اور وہاں سے بزنس منیجمنٹ اینڈ اڈمنسٹریشن میں ڈپلومہ کرنے کے بعد1973 میں ابوظہبی کے لئے چلے گئے اور اپنے چچا کے بزنس میں شامل ہوگئے ۔ 2017 میں وہ 5 بلین ڈالر دولت کے مالک تھے۔ لولو گروپ کے صرف گلف ریجن میں 132 اسٹورس ہیں۔ لولو گروپ انٹرنیشنل کو ہندستان کے باہر ہندستانیوں کو سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ عرب دنیا میں تجارت کرنے والے 100 سرکردہ تاجرین میں وہ سرفہرست ہیں۔ حکومت ہند نے انہیں پدم شری کے اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ یہ بھی ایک مخیر انسان ہیں اور عرب دنیا میں ہندستانیوں کی فلاح و بہبود کے لئے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔ انہوں نے غزہ اور نیپال میں دبئی کیرس کے ساتھ مل کر اسکولس کو adopt کیا ہے۔ انہوں نے شارجہ میں ہندستانیوں کے لئے 8.3 ایکڑ اراضی پر ہمہ مذہبی شہر خموشاں multi faith funeral centre بسایا ہے۔

یوسف حمید (Cipla):

سائنسداں یوسف خواجہ حمید معروف دواساز کمپنی سپلا Cipla کے نان ایکزیکٹیو چیرمین ہیں ۔ 2017 میں ان کے خاندان کی دولت کا تخمینہ 2.6 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ جنرک اودیات تیار کرنے والی اس کمپنی کی بناء یوسف حمید کے والد خواجہ عبدالحمید نے1935 میں ڈالی تھی۔ ان کے والد بابائے قوم گاندھی جی کے پیروکار تھے۔ یوسف حمید کی والدہ فریدہ یہودی النسل تھیں۔ ان کے والد گاندھی جی کے ساتھ تھے۔ ممتاز ماہر تعلیم سرسید احمد خان ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید نے 1960 میں سپلا لمیٹیڈ میں آفیسر انچارج آف ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ۔برطانوی راج کے باعث انہیں اپنے والد کی کمپنی میں کام کرنے کے لئے حکومت سے اجازت حاصل کرنی پڑتی تھی چنانچہ ان کی ابتدائی تنخواہ تین سال کے لئے 1500 روپے مقرر ہوئی اور مکمل ایک برس کام کرنے کے بعد انہیں اپنی پہلی تنخواہ ملی۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد انہوں نے کمپنی کو سنبھالا۔ کام کرنے کی اجازت ملنے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ ہر بڑی دوا جو وہ بنانا چاہتے تھے پیٹنٹس کے تحت تھیں، ایسی دوائیں برآمد کرنا تقریباً ناممکن تھااور اندرون ملک مارکٹ پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ تھا۔ اس لئے انہوں نے ہندستان کے پیٹنٹ قوانین کو تبدیل کروانے 1961 میں انڈین ڈرگ مینوفیکچررس اسوسی ایشن قائم کی ۔ آخر کار 1972 میں ان کی محنتیں رنگ لائیں اور ہندستانی فارما صنعت کو ملک میں درکار کسی بھی دوا کی تیاری اور فروخت کرنے کی قانونی آزادی دے دی گئی، جس کے نتیجہ میں ملک میں فارماسیوٹیکل صنعت کو خوب بڑھاوا ملا۔ حکومت ہند نے انہیں ’پدم بھوشن‘ ایوارڈسے نوازا ہے۔ ان کی کمپنی ایڈز کی دوا سب سے کم قیمت پر فروخت کرنے والی کمپنی ہے۔ انہوں نے پونے میں کینسر کے مریضوں کے لئے کیر یونٹ بھی قائم کیا۔