نئی دہلی۔ ہندوستان کے مشہور صنعت کار سنجے ڈالمیا نے ملک کی معیشت میں جاری سستی روی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی سطح پر جاری سرد مہری کی وجہ سے ہندوستانی معیشت کی سرگرمی ماند پڑگئی ہے لیکن ملک میں ہر شعبہ میں طلب بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور گاؤں کی ترقی کے بغیر معیشت کو بہتر کرنا مشکل ہوگا۔ ڈالمیا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان دنوں ہندوستانی معیشت میں سستی روی کے چرچے ہر جگہ ہورہے ہیں۔
وزیر خزانہ نرملا سیتارمن معیشت کی رفتار تیز کرنے کے لئے صنعت کاروں سے رائے ومشورہ طلب کررہی ہیں اور معیشت کو ٹھیک کرنے کے اقدام کررہی ہیں۔ صنعت کار جی سی ٹی کی شرح کم کرنے اورانسینٹیو پیکج کا مطالبہ کررہا ہے۔ معیشت کو بہتر کرنے کے لئے صحیح اقدامات کرنے پڑیں گے۔ پورے ملک کے ہر شعبہ میں طلب میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ اس کے پیچھے معیشت کا وہ قانون ہے جو صرف ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
کسی بھی ملک کی معیشت تب تیزی سے بڑھتی ہے جب وہاں طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ طلب میں اضافہ ہونے سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے کمپنیوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ڈالمیا نے سوال کیا کہ طلب میں کب اضافہ ہوتا ہے؟ طلب میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب لوگوں کے ہاتھ میں خرچ کرنے کے لئے پیسے ہوتے ہیں۔ جب تک عام لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لئے پیسے نہیں ہوں گے طلب میں اضافہ نہیں ہوگا۔ ہندوستانی معیشت میں سستی کی سب سےبڑی وجہ طلب میں کمی ہے۔ یہ کمی دیہی معیشت سے شروع ہوتی ہے۔
آج بھی 60 فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے۔ حکومت اگر صنعت کاروں کورعایت دے بھی دے تو کیااس سے طلب میں اضافہ ہوگا؟ نہیں ہوگا۔ طلب میں اضافہ کرنے کے لئے صنعت کاروں کو انسینٹیو پیکج دینے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے کی ہے۔ اس سمت میں حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں۔ اس کا اثر آنے والے مہینوں میں دکھائی بھی دے گا۔ حکومت نے وزیراعظم فنڈ کے تحت ہر کسان کو 6000 روپے دیئے ہیں۔ یہ ایک اچھی ابتدا ہے۔ آنے والے دنوں میں اسے بڑھاکر 10 ہزار روپے کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ معیشت میں تیزی لانے کے لئے سب سے بڑی انسینٹیو پیکیج ہوگی۔ کسانوں اور غریب خاندان کے پاس پیسہ آئے گا تو خریداری میں خود بخود اضافہ ہوگا۔ ڈالمیانے کہا کہ فصلوں کی کم از کم سہارا قیمت (ایم ایس پی) پر حکومت کی جانب سے جلد اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے لاکھوں کسانوں کے اہل خانہ کو صحیح وقت پر ان کی فصل کی قیمت نہیں مل پارہی ہے۔ حکومت ہر فصل کا ایم ایس پی طے ضرور کرتی ہے، اس کا فائدہ کسان تک پہنچتا نہیں ہے۔ منڈیوں تک کسانوں کی پہنچ ابھی بھی بہت محدود ہے۔ اگر کسان کو پیداوار ہونے کے ساتھ ایم ایس پی کے مطابق قیمت مل جائے تو اسے اپنی فصل کم قیمت میں چھوٹے تاجروں سے بچنے پر مجبور نہیں ہونا پڑے گا اور نہیں قرض لینے کی ضرورت پڑے گی۔