نئی دہلی ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے یکم پریل کو ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن جماعت کانگریس پر یہ الزام عائد کیا کہ امن پسند ہندوؤں کو ہندو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کی توہین کی ہے اور امن پسند قوم کو دہشت گرد کا لیبل لگایا ہے ۔مودی نے اپنی اس تقریر میں کھلے عام یہ کہا ہے کہ ہندو دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں ہے اور ہندو قوم پرتشدد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوتی ہے اور خود اس بات کو انگریز نے بھی کہا ہے ،لیکن شاید مودی ہندوستانی تاریخ اور موجودہ دور میں ہندو قوم کی دہشت گردی اور پرتشددسینکڑوں واقعات کو بھول چکے ہیں اور معلوم نہیں کس برطانوی شخص نے ،کب اور کہاں یہ کہا تھا کہ ہندو قوم دہشت گرد نہیں ہوتی ہے کیونکہ مودی کے ہمیشہ خیالات حقائق کے برعکس ہوتے ہیں۔
ہندوستان کی تاریخ اور موجودہ حالات گواہی دیتے ہیں کہ ہندو دہشت گردوں نے کئی مرتبہ ناصرف اپنی قوم بلکہ اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھنے والی دیگر اقوام کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں موت کی نیند سلا ہی ہے ۔ 1948 میں حیدرآباد کے پولو آپریشن میں ہزاروں مسلمان مارے گئے ۔1950 اور 964 میں کولکاتا اور 1969،1985 اور 2002 میں گجرات فسادات ،1992 میں بھاگلپور فسادات ،1983 میں نیلی فسادات ، 1992میں ممبئی فسادات ،2013 میں مظفر نگر فسادات یہ وہ چند فسادات کے نام ہیں جس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کو موت کی نیند سلا گیا ہے اور یہ سب ہندو دہشت گردوں کی کارروائیاں ہیں ۔ ہندو دہشت گردوں نے نہ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ سکھوں کو بھی کی فسادات میں مارا گیا ہے جس میں خاص کر دہلی میں ان پر زیادہ ظلم ہوا ۔ 1984میں سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے خلاف جو کارروائی کی گئی وہ بھی تو ہندو دہشت گردی کا ایک نمونہ ہے تو 1999 کا وہ واقعہ کون بھول سکتا ہے جب ایک آسٹریلیائی مشنری کے سرپرست گرائم ڈسٹینس اور ان کے آٹھ سالہ بیٹے فلپ اور چھ سالہ بیٹے تیموتی کو ہندو دہشت گردوں نے زندہ جلا دیا تھا ۔یہ واقعہ اڑیسہ میں پیش آیا تھا اور اسی ریاست میں 2008 کا وہ واقعہ بھی سب کے ذہنوں میں آ ج بھی تازہ ہے جس میں کئی عیسائیوں کو ہندو دہشت گردوں نے موت کی نیند سلا ہی ہے ۔
ہندوستان کی تاریخ میں درجنوں ایسے واقعات موجود ہیں جس میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ ہندودہشت گرد بھی ملوث ہیں جنہوں نے اقلیتی طبقے کو نشانہ بنایا ہے۔حالیہ دنوں میں ہجومی تشدد ہندودہشت گردی کی فہرست میں نئے باب کا اضافہ ہے جوکہ گائے کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنائے جانے کی کارروائیاں ہیں۔
ہندوستان جس نے پرامن طریقے سے مہاتما گاندھی کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑی تھی اور جس شخص نے عدم تشدد کی راہ اختیار کرتے ہوئے ہندوستانی قوم کو بھی اسی راستے پر چلنے کی تلقین کی تھی ،آزادی کے فوری بعد عدم تشدد کے اس علمبردار گاندھی کو جس شخص نے قتل کیا وہ نتھو رام گوڈسے تھا۔ اس شخص کے نظریات سے ہیں نریندر مودی اتفاق رکھتے ہیں جو کہ عدم تشدد کے علمبردار کو تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔
ایک جانب جہاں گاندھی جی عدم تشدد کی راہ پر چلتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے اسی موقع پر سبھاش چندر بوس گاندھی سے مختلف راہ اختیار کرتے ہوئے برطانوی سامراجیت کے خلاف جاپان اور جرمنی کی نازی طاقتوں کی مدد سے اپنی پرتشدد جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے جو کہ عدم تشدد کا راستہ بالکل نہیں تھا ۔ گاندھی جی کے مخالف سمت میں جو لوگ تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے اور جس شخص نے گاندھی جی کو سرعام موت کی نیند سلا گیا ہے ،اسی کے نظریات سے مودی بھی اتفاق کرتے ہیں اور اسی نظریے کو وہ بھی مانتے ہیں ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہے کہ دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح ہندو مذہب بھی اپنے ماننے والوں کو کسی بھی قسم کے پرتشدد راستے کو اختیار کرنے سے سختی سے منع کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستانی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں ہندو قوم کی جانب سے پر تشدد جنگی ، واقعات اورلڑائیاں موجود ہیں۔ ہندوستانی تاریخ میں عظیم بادشاہ اشوک کا نام سر فہرست بادشاہوں میں شمار ہوتا ہے لیکن کلینگا کی لڑائی جو خود ہندوؤں کی جانب سے ہندوؤں کے خلاف ہی تھی اس میں ہزاروں جانیں گئی ہیں ۔ ہندوستانی تاریخ میں کلینگا کی جنگ بڑی جنگوں میں شمار کی جاتی ہے اور یہ ایک خونی جنگ تھی۔ ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں بھی مراہٹا بادشاہوں کی جانب سے 1742 میں بنگال اور 1750 میں جے پور میں ہوئی جنگی بھی پرتشدد واقعات کا ہی ایک حصہ ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ نہ صرف ہندو بادشاہوں نے پرتشدد کارروائیوں میں اپنا حصہ ادا کیا بلکہ اس مذہب سے تعلق رکھنے والے عام شہری بھی کئی ایک واقعات میں ملوث ہیں ۔1947 میں جب ہندوستان کو آزادی ملی اور ملک کی تقسیم ہوئی اس وقت بھی فسادات ہوئے تھے جس میں تقریبا برصغیر میں ایک ملین عوام کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا اور مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہی تھی ۔ تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات کے بعد سے آج تک ہندوستان میں آئے دن فسادات ہوتے رہتے ہیں جس میں مرنے والوں کی زیادہ تعداد اقلیتی طبقے اور خاص کر مسلمانوں کی ہوتی ہے ہندوستان کی عام ہندو قوم بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کیا جاتا رہا ہے ۔
تشدد پسند افراد کی طرح ہندوانتہا پسند بھی کئی تخریب کاریوں میں ملوث ہیں ۔30 جنوری 1948 کو گاندھی کے قتل کے علاوہ للت نارائن مشرا ، راجیو گاندھی ،پھولن دیوی اور وی سی شکلا بھی ہندوتوا نظریات کے ماننے والوں کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہندوستان میں کوئی سیاسی رہنما مسلم دہشت گردوں کا نشانہ بنتے ہوئے موت کی نیند نہیں سویا ہے ۔
ہندوستانی وزیر اعظم مودی کا انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران کہنا کہ ہندو قوم پرتشدد واقعات میں ملوث نہیں اورنہ ہی یہ ہندو دہشت گرد ہو سکتے ہیں دراصل قوم کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے ،کیونکہ اس وقت کئی ایسے نام موجود ہیں جو مختلف وقت میں مختلف مقامات پر مختلف واقعات میں ملوث جس میں سادھوی پرگیہ ٹھاکر ،کرنل سری کانت پروہت اور سوامی اسیمانند شامل وہ نام ہیں جو کہ 2006 تا 2008 کے دوران مالیگاؤں بم دھماکہ، مکہ مسجد بم دھماکہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ اور اجمیر شریف کی درگاہ کے دھماکے جیسے کئی ایک واقعات میں ملوث ہیں اور ان تخریب کاریوں میں سینکڑوں معصوم افراد مارے گئے ہیں ۔
ہندوستان میں ہندو دہشت گردوں کی موجودگی حقیقت ہے اور آئے دن یہ خبریں منظر عام پر بھی آتی ہیں کہ کئی ایک ایسی تنظیمیں ہیں جو کہ پرتشدد کارروائیوں کو فروغ دینے کے علاوہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کھلے عام ہتھیاروں کی تقسیم میں بھی ملوث رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف آواز اٹھانے والے کئی صحافیوں کو بھی موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔ جس میں نریندرا دا بھول کر ، گوند پنسارے ، ایم ایم کلبرگی اور گاوری لنکیش کے نام قابل ذکر ہیں اور ان کے قتل میں ہندو دہشت گردوں کے ملوث ہونے پر بھی شبہ کیا جاتا ہے ۔بہر کیف دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کے وزیراعظم ہونے کے ناطے نریندر مودی کو حقائق کے خلاف جھوٹ کو پھیلانے سے احتیاط کرنی ہوگی کیونکہ ان کے بیانات کے برعکس حقائق اور ثبوت اتنے واضح ہیں کہ مودی کا بیان جھوٹ کا پلندہ ہی ثابت ہوتا ہے۔