حیدرآباد۔ ثیمنہ بانو کی غیر مسلم نوجوان سائی چرن سے شادی ، سائی کی جانب سے ہراسانی اور پھر خود کشی کی خبر آج تمام اخبارات کی زینت بنی ہوئی ہے جوکہ مسلم سماج کا ایک تشویش ناک اور سیاہ باب ہے ۔چند دن قبل ورنگل میں رفیقہ نامی خاتون کا وجئے کمار یاد و کے ساتھ ناجائز تعلقات اور پھر اس خاتون کے علاوہ 9 دیگر معصوم اور بے گناہ افراد کے قتل کا واقعہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ ثمینہ بانو کے واقعہ نے یہ ثابت کردیا کہ ایسے واقعات چند ایک نہیں بلکہ ان کی تعدادشاید بڑھتے ہی جارہی ہے۔
صرف اخبار کی خبر کی روشنی میں ثمینہ بانو کے واقعہ کا تذکرہ کریں تو 20 سالہ اس نوجوان لڑکی کا تعلق شہر کے مصروف ترین علاقے نریڈمٹ سے ہے جہاں اس نے مقامی غیرمسلم نوجوان کی محبت میں گرفتار ہونے کے بعد نومبر میں شادی کرلی تھی ۔سائی چرن بھی نریڈمٹ کے علاقے چندرا گیری کالونی کا مقیم ہے ۔محبت اور شادی کے چند ماہ میں ہی اس لڑکی کو خودکشی کرنی پڑی،جس کی وجہ سائی کی جانب سے ثمینہ کو ہراساں کیا جانا ہے۔
ورنگل میں رفیقہ اور پھر اب حیدرآباد میں ثمینہ بانو کے واقعات نے یہ ظاہر کردیاہے کہ مسلم سماج کو روٹی ،کپڑا اور مکان کے بعد اب اپنی خواتین اور لڑکیوں کے ایمان و عزت اور پاکدامنی کے مسائل کا سامنا بھی ہے ۔ان مسائل کے حل کے لئے جہاں مسلم تنظمیوں کو اپنی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب والدین کو بھی خواب غفلت سے جاگنے کی ضرورت ہے کیونکہ کہیں ہمارے آنگن میں ہی کوئی اور رفیقہ یا ثمینہ نہ بن جائے۔
بچوں کی جہاں پرورش میں والدین دن رات ایک کررہے ہیں وہیں ایسے واقعات متقاضی ہیں کہ گھر کا ماحول دین دار بنانے کے علاوہ والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ رشتوں کو فروغ دینا ہوگا ۔عصری ٹکنالوجی کے اس طور میں سوشل میڈیا خاص کر فیس بک اور واٹس ایپ پر ان کی سرگرمیوں پر نظررکھنے میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔اکثر دیکھا جاتا ہے کہ سماج میں بڑھتی برائیوں کا الزام مولوی حضرات کے سر تھوپ کر ہم اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری خواتین کے ہم ہی محافظ ہیں۔اولاد کو جہاں ہر قسم کا آرام اور انکی خواہش کو پوری کرنے میں ہم کوئی کسر نہیں چھوڑتے وہیں ان کے ایمان و عقیدہ کے بقاکی کوشش بھی ہمیں ہی کرنی ہوگی ۔فطری تقاضوں سے چشم پوشی کا نیتجہ ہی ہے کہ ہمیں رفقیہ اور ثمینہ جیسی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔