لکھنؤ۔ اترپردیش میں اس وقت انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں اور برسراقتدار بی جے پی اپنے ووٹ بنک کو مستحکم کرنے کی غرض سے وہی پرانا حربہ استعمال کرتے ہوئے اقلیتوں کو نشانے بنارہی ہے اور اس کے لئے اس نے آبادی کو کنٹرول کرنے کا نیا حربہ استعمال کیا جارہا ہے جو دراصل سیاسی مفادات حاصل کرنے کے سوایا کچھ نہیں ہے ۔
بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) سپریمو مایاوتی نے آبادی کنٹرول بل کے مسودے کو نشانہ بناتے ہوئے اترپردیش حکومت کی نیت پر سوال اٹھایا ہے اورکہا ہے کہ اس میں سنجیدگی کم اور انتخابی مفاد زیادہ نظر آرہا ہے ۔مایاوتی نے یکے بعد دیگر تین ٹوئٹ کر کے بل کے سلسلے میں تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش بی جے پی حکومت کے ذریعہ آبادی کنٹرول کے لئے لایا جارہا نیا بل ، اس کے خصائص و خامیوں سے زیادہ اس قومی فکر کے تئیں سنجیدگی کے سلسلے میں حکومت کی پالیسی و نیت دونوں شک و سوال کھڑے کررہا ہے کیونکہ لوگوں کو اس میں سنجیدگی کم و انتخابی مفاد زیادہ نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آبادی کنٹرول کے سلسلے میں یوپی بی جے پی حکومت تھوڑی بھی سنجیدہ ہوتی تو یہ کام حکومت کو تب ہی شروع کردینا چاہئے تھا جب ان کی حکومت بنی تھی اور پھر اس بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا کرتی تو اب یہاں اسمبلی انتخابات کے وقت تک اس کے نتیجے بھی مل سکتے تھے ۔
بی ایس پی صدر نے کہا اترپردیش ملک کی آبادی کو بیداری، تعلیم و روزگار بخش بنا کر اسے ملک کی طاقت و احترام میں بدلنے میں ناکامی کی وجہ بی جے پی اب کانگریس کی سابق حکومت کی طرح ہی زور وزبردستی و زیادہ ترخاندانوں کو قصوروار بتاکر آبادی پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے جو عوام کی نظرمیں سخت معیوب ہے ۔قابل ذکر ہے کہ اترپردیش حکومت نے آبادی کنٹرول کی نئی پالیسی کا مسودہ تیار کیا ہے جس پر اسٹیٹ لا کمیشن عوام کی رائے لے رہاہے جس کی بنیا دپر رپورٹ 19جولائی کو حکومت کو سونپے گا۔ کانگریس نے اس بل پر خاموشی اختیار کررکھی ہے وشو ہندوکونسل نے مسودے پر اعتراض کا اظہار کرتے ہوئے ایک بچے کے وصول کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ اس سے سماجی ناہمواری کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔