Sunday, June 8, 2025
Homeٹرینڈنگیوگی حکومت کی دہشت گردی  بے نقاب، رپورٹ نے پولیس کے ظلم...

یوگی حکومت کی دہشت گردی  بے نقاب، رپورٹ نے پولیس کے ظلم کو بھی بے پردہ کردیا

- Advertisement -
- Advertisement -

لکھنو ۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے کالے قانون کے نفاذ کے بعد سے ملک بھر میں احتجاج ہورہے ہیں لیکن چند ایک مقامات پر پولیس کے ظلم اور لاٹھی چارج کی وجہ سے حالات سنگین ہوئے جس میں خاص کر یوگی آدتیہ ناتھ کی سرپرستی میں اترپردیش پولیس کے بندوبست کے واقعات سرفہرست ہے ۔ کالے قانون کے خلاف آواز بلند کرنے والے محب وطن افراد کے خلاف پہلے تو پولیس کا ظلم پھر یوگی حکومت کی جانب سے ان پر عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے خلاف مقدمات میں موجود ظلم وجہول دنیا پر عیاں ہیں لیکن اب حقائق کا پتہ لگانے والی ایک رپورٹ نے بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیاہے۔

 اترپردیش کے مختلف اضلاع میں شہریت (ترمیمی) قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف کئے گئے احتجاجی مظاہروں کے درمیان ہونے تشدد پر کاروان محبت کی ٹیم نے اترپردیش پریس کلب میں ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی۔ اترپردیش میں دسمبر 19 اور 20 کو صوبہ کے مختلف مقامات میں سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ جس میں تقریبا 23 افراد جان بحق ہوئے تھے۔ شرپسند عناصر کی جانب سے آگ زنی اور پتھر بازی بھی ہوئی تھی تو پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے تھے۔ بعد میں پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے مظاہرے میں ملوث ہونے کے پاداش میں متعدد افراد کو گرفتار اورعوامی املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگا کر مبینہ مظاہرین کے نام ریکوری نوٹس جاری کی گئی ہے۔

اس پورے معاملے میں یوپی پریس کلب میں کاروان محبت اور یوپی کوآرڈینیش کمیٹی اگینسٹ سی اے اے، این آر سی اینڈ این پی آر کے بینر تلے منعقد پروگرام میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے سابق آئی اے ایس و معروف سماجی کارکن ہرش مندر نے الزام عائد کیا کہ ریاستی انتظامیہ نے تشدد کو قابو میں کرنے کے لئے جو طریقہ استعمال کیا ہے وہ اس تشدد سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ پر اشتعال انگیز زبان کا استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے دعوی کیا کہ وہ اپنی مخالفت میں اٹھنے والی ہرآواز کو دبانا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ پرتشدد جھڑپوں میں پولیس نے اقلیتوں کے خلاف مبینہ بربریت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اترپردیش میں ایک نیا طریقہ دیکھنے کو ملا ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں دعوی کیا گیا ہے کہ مظفر نگر، میرٹھ، سنبھل اور فیروزآباد میں متاثرین سے ملاقات کے دوران جانچ ٹیم نے پایا کہ پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی، ان کے اسکوٹرکاروں کو آگ لگادی گئی۔ ٹی وی، واشنگ مشین جیسے آلات کو پوری طرح سے تباہ کر دیا۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پولیس کو روکنے کی کوشش کرنے پر گھر کے بزرگوں، خواتین اور یہاں تک معصوم بچوں پر بھی پولیس نے لاٹھیاں برسائیں فرقہ وارانہ نعرے لگائے۔

رپورٹ کے دعوو ¿وں کے مطابق مظفر نگر، میرٹھ، سنبھل اور فیروزآباد میں جملہ 16 افراد کی موت سینے سے اوپر گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ مہلوکین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی تک اہل خانہ کو نہیں سونپی گئی ہے۔ 16 میں سے صرف ایک شخص کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دی گئی ہے جس میں گولی کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ ٹیم کے پاس وافر ثبوت موجود ہیں کہ سبھی افراد کی اموات گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

رپورٹ میں الزام لگا یا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے تشدد کے الزام میں گرفتار کئے گئے افراد کے خلاف تھانوں میں ہراساں کئے جانے اور دواخانوں میں ڈاکٹروں کی جانب سے زخمیوں کے ساتھ سلوک ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کیا گیا ہے اور اس میں تمام حدود کو توڑ دیا گیا ہے۔رپورٹ دعوی کرتی ہے کہ ڈاکٹروں نے ہر مریض کے علاج کرنے کے قسم کھانے کے وعدے کو نہیں نبھایا ہے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ یو پی کے حقیقی صورتحال سے آگاہی کے لئے دہلی میں 16 جنوری کوجسٹس سدھا شرن ریڈی کی قیادت میں منعقد پبلک ٹریبونل میں گواہوں کو سننے اور رپورٹوں کو دیکھنے بعد ٹریبونل نے اپنے احساسات میں کہا کہ جیوری کہ اگرچہ قانونی اہمیت کافی کم ہو لیکن اس کی اخلاقیت کافی طاقت ور ہے۔رپورٹ میں جیوری کے حوالے سے دعوی کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کے اوپر سے لے کر نیچے تک کے پورے عملے نے ایک مخصوص طبقے اور مظاہرین کی قیادت کررہے سماجی کارکنوں کے خلاف مبینہ طور سے جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔

رپورٹ میں پولیس پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعوی کیا گیا ہے کہ پولیس نے نہ صرف عام لوگوں کے ساتھ تشدد کیا بلکہ بے گناہوں اور کارکنوں کو جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ پولیس نے نابالغوں اور بچوں تک کو اپنی حراست میں لے کر ان کی مبینہ طور سے پٹائی کی ہے۔میڈیکل ملازمین کو علاج کرنے سے روکا گیا ہےاور حکومت کی جانب سے دفعہ 144 کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے۔ رپورٹ کی تیاری کے دوران جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ کافی پریشان کردینے والے ہیں کیونکہ خواتین نے اپنے بیان میں کہا ہےکہ پولیس کی دہشت اور فرقہ پرست ذہنیت کی وجہ سے گھر کہ نوجوان رات بھر گھروں اور محلے کی نگرانی میں آنکھ بند نہیں کرتے تھے کیونکہ پولیس کسی بھی وقت گھر میں گھس کر افراد خاندان کو ظلم کانشانہ بناسکتی تھی ۔ ریاستی منصوبہ بند تشدد سے ہلکان اترپردیش کی عوام کے نام سے پیش کی گئی اس طویل تفصیل رپورٹ کو سابق آئی اے ایس وسماجی کارکن ہرش مندر اور نورشن سنگھ کی نگرانی میں تیار کیا گیا ہے۔