Sunday, June 8, 2025
Homesliderآئندہ ماہ گنڈی پیٹ کے 100 سال مکمل  ہوں گے،صد سالہ تقریب...

آئندہ ماہ گنڈی پیٹ کے 100 سال مکمل  ہوں گے،صد سالہ تقریب کا اعلان

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔آئندہ ایک ماہ کے دوران یعنی 8 مئی کو حیدرآباد ریاست میں  60 لاکھ روپے کے تخمینے سے شروع ہونے والے ایک آبی منصوبے کے 100 سال منائے گا اور گزشتہ ایک صدی سے یہ آبی ذخیرہ شہر حیدرآباد میں لاکھو ں خاندانوں کو پانی کی فراہمی کے ساتھ روزمرہ کی زندگی کا ایک حصہ بنا ہوا  ہے ۔جی ہاں! ہم گنڈی پیٹ کی بات کررہے ہیں جو آئندہ ماہ اپنے 100 سال مکمل کرنے والا ہے اور اس ضمن میں ایک صد سالہ تقریب منائی جائے گی ۔

عثمان ساگر جو گنڈی پیٹ کے نام سے بھی مشہورہے  یہ صرف ایک آبی ذخیرہ نہیں ہے جو 100 سال سے شہر حیدرآباد  کی پیاس بجھاتا آرہا ہے بلکہ یہ شہر کے آس پاس کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے جہاں روزآنہ درجنوں خاندانوں کے لوگ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔

ماہ مئی کی 8 تاریخ کو شہر حیدرآباد کو پانی کی فراہمی کی ایک نئی اسکیم کے طور پر اور دریائے موسی میں سیلاب کی روک تھام کے لئے جس منصوبے کو روبہ عمل لایا گیا تھا اس پراجکٹ کی  تکمیل کو ایک صدی ہو رہی ہے ۔جو نظام حکمراں  کی عوام دوستی کی ایک شاندار مثال اور حیدرآباد کی تاریخ کا فخریہ لمحہ ہے ۔

حیدرآباد کی تاریخ میں 1908 کا  موسیٰ ندی  کا سیلاب اور اسکی تباہ کاریاں   ناقابل فراموش باب ہے  ۔ بعد ازاں اس وقت کے نظام نے انجینئرنگ کے شعبہ کے مشہور ماہر  ایم ویس ویس واریا سے اس وجہ کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا  تھا۔ایم ویس ویس واریا نے 1.28 کروڑ روپے کی لاگت سے دریائے موسی اور دریائے عیسیٰ پر دو آبی ذخائر بنانے کی صلاح دی۔ اس کو چھٹے نظام مرحوم میر محبوب علی خان نے 5 مارچ 1910  کو منظور کیا  تھا ۔ حیدرآباد اور سکندرآباد کو پانی کی فراہمی ناکافی تھی لہذا ساتویں نظام میر عثمان علی خان نے پہلے فرمان کے ذریعہ موسیٰ ندی  پر ذخیرے آب کی تعمیر کا کام  15 جولائی ، 1912 کو شروع کیا۔ ۔

ایک ماہر ارون کے مطابق اس منصوبے پر 57.35 لاکھ روپے لاگت آنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ قیمتوں میں اتار چڑھاو کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام میر عثمان علی خان نے 11 نومبر 1915 کو ایک فرمان  کے ذریعے اس منصوبے کے لئے 60 لاکھ روپے کی منظوری دی ۔ نظام میر عثمان علی خان کے اس فرمان کی ایک کاپی میڈیا اداروں کے پاس موجود ہے۔

بجٹ کی منظوری کے بعد نئی آبی اسکیم کے لئے کام 15 جولائی ، 1916 کو شروع ہوا۔ لیکن جیسے ہی ارون یورپ روانہ ہوا تھا ، اس منصوبے کوایک اورشخص کے سپردکردیاگیا تھا،جس کی شناخت اے ڈبلیو اسٹون برج کے نام سے ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پاس دستیاب قدیم  اردو زبان میں موجود  ریکارڈوں اور احکامات کے مطابق یہ پراجکٹ  8 مئی 1921 کو مکمل ہوا تھا ۔

ریکارڈ کے مطابق عثمان ساگر کے ذخیرے آب کو 60 لاکھ روپے میں مکمل کرنے  میرعثمان علی خان نے فرمان کے ذریعہ منظوری دی۔ اس منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا تھا کیونکہ اوراس منصوبے کے انچارج اسٹون برج کی طرف سے مبینہ طورپر کچھ بدانتظامی کی وجہ سے .89,37,810 روپے ہو ئے تھے ۔

ریکارڈ کے مطابق منصوبے کے بیشتر کام 8 مئی 1921 کو مکمل ہوگئے تھے۔ اس کے بعد حیدرآباد کو پانی فراہم کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے کام کا آغاز ہونے سے پہلے ہی پانی کی فراہمی پرسکندرآباد کے عوام  کی شکایات تھیں۔ اس پر حکومت ہند اور نظام حکومت کے مابین 11 سال تک خط و کتابت رہی۔ اسٹیٹ آرکائیوز کی ڈائریکٹر زرینہ پروین کے بموجب آخرایک معاہدے کے بعد سکندرآباد اورکنٹونمنٹ کے علاقوں میں پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔

عثمان ساگر کی تعمیر سے پہلے حیدرآباد میں پانی کے دو اہم ذرائع تھے  ایک حسین ساگر اور دوسرا میر عالم ٹانک۔ ابتدائی منصوبے میں عثمان ساگر سے میر عالم ٹانک اور حسین ساگر کو آبی ذخیرے کے ہر طرف کھلی نہروں کے ذریعے پانی فراہم کرنا تھالیکن یہ منصوبہ ہیلتھ سیفٹی کے بارے میں حکومت ہند کے چیف ماہرکرنل کلیمنٹ کے مشورے پر منسوخ کردیا گیا کیونکہ  انہوں نے  پونے میں وبائی بیماری کا حوالہ دیا اور کہا کہ نقصان دہ مادہ اور دیگر آلودگی بارش کے موسم میں کھلی نہروں میں داخل ہوسکتی ہیں جو نقصان دہ ہے ۔