نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے ملک سے غداری کے التزامات کے استعمال کو مسلسل جاری رکھنے پر سوال کر تے ہوکہا کہ آزادی کے 74 سال بعد بھی اس طرح کے التزام کو قائم رکھنا بدبختانہ ہے ۔ چیف جسٹس این وی رمن، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس رشی کیش رائے کی بینچ نے میجر جنرل (ریٹائرڈ) ایس جی ومبٹکیرے کی عرضی پر سنوائی کے دوران اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال سے تعذیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 124 (اے ) قائم رکھنے کے ضرورت پر سوال کیا ہے ۔
جسٹس رمن نے مسٹر وینوگوپال سے پوچھا کہ آزادی کے 74 سال گذر جانے کے بعد بھی سامراجی دور کے اس قانون کی ضرورت ہے کیا، جس کا استعمال آزادی کی لڑائی کو دبانے کے لیے گاندھی اور بال گنگا دھر تلک کے خلاف کیا گیا تھا۔ وینوگوپال نے عدالت کو مطلع کیا کہ ملک سے غداری کے التزام کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضی پہلے سے ہی دوسری بینچ کے پاس زیر التواءہے ۔ اس کے بعد عدالت نے اس عرضی کو بھی اسی کے ساتھ متعلق کر دیا، حالانکہ اس نے مرکز کو نوٹس بھی جاری کیا۔
شنوائی کے دوران جسٹس رمن نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آخر اس التزام کی ضرورت کیا ہے جب اس کے تحت جرم ثابت ہونے کی شرح بالکل نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے اس دوران انفرمیشن ٹکنالوجی کی مسترد کی گئی دفعہ66 اے کے تحت مقدمہ جاری رکھنے جیسی لاپرواہی کا بھی ذکر کیا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہے کہ اس وقت ہندوستان میں کئی افراد کے خلاف ملک سے غداری کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور انہیں عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔کئی ایسے واقعات حالیہ دنوں میں منظر عام پر آئے ہیں جن میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا ۔