Wednesday, April 23, 2025
Homeٹرینڈنگآسام کے مسلمانوں کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی

آسام کے مسلمانوں کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی

- Advertisement -
- Advertisement -

دسپور ۔ بی جے پی حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے ہندوستان میں اقلیت اور خاص کر مسلمانوں کے لئے آئے دن نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جبکہ ریاست آسام کے مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اپنی شہریت ثابت کرنے کا ہے جو ان کے لئے کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں کیونکہ پہلے ہی ہزاروں افراد کے نام قومی شہریت کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ اب اس کے بعد جن کے نام فہرست میں شامل نہیں ہیں انہیں اپنے ناموں کی تجدید کروانے کے لئے نوٹسیں جاری کی گئی تھیں اور انہیں ہدایت دی گئی ہے کہ وہ متعلقہ مرکز پر رپورٹ کریں لیکن ستم بالائے ستم حقیقت یہ ہے کہ جن افراد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں جس متعلقہ مرکز سے رجوع ہونے کی ہدایت دی گئی وہ سینکڑوں کیلو میٹر دور ہے اور چند واقعات میں ایسے اعداد و شمار بھی سامنے آئے ہیں کہ ایک ہی خاندان کے کئی افراد کو بیک وقت ایک سے زائد مراکز سے رجوع ہونے کی ہدایت دی گئی ہے۔

جن افراد کو نوٹسیں جاری کی گئی ہیں انہیں شہریت کے دستاویزات کے ساتھ نیشنل رجسٹرڈ آف سٹیزن (این آر سی) کے سیوا کیندراس (این ایس کیایس) رجوع ہونے کی ہدایت دی گئی ہے جو تقریباً 400 تا 700 کیلو میٹر دور واقع ہیں۔ ہزاروں ایسے خاندان ہیں جنہیں این آر سی کے حکام کی جانب سے نوٹسیں جاری کی گئی اور انہیں 24 گھنٹوں کے اندرون جواب دینے کے علاوہ سینکڑوں کیلو میٹرس دور موجود مراکز سے رجوع ہونے کی ہدایت دی گئی تھی جو حقیقت سے کافی بعید ہے۔ آسام کے مسلمانوں کے لئے اب جو مشکل ترین حالات ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لئے تفیض الدین اور نظام الحق چودھری کے افراد خاندان کے مسائل کا جائزہ لینا کافی ہوگا کیونکہ ہر مسلمان کی یہاں ایسی ہی کہانی ہے۔ 50 سالہ تفیض الدین کا تعلق کمرو ضلع کے سنتولی سے ہے۔ انہوں نے بنگلور سے اپنے دوسرے بیٹے کا نام شہریت فہرست میں شامل کروانے کےلئے 13 ہزار روپے قرض لیا تاکہ این آر سی کے کاموں کو انجام دیا جاسکے لیکن بنگلور سے نصیر الدین کو گھر واپس لانے کے لئے کی جانے والی اس کوشش کے باوجود انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ این آر سی کی جانب سے جو قطعی فہرست 31 اگست کو جاری کی جائے گی اس میں نصیر الدین کا نام شامل ہوگا یا نہیں۔

تفیض الدین کو 4 اگست کے دن صبح 7 بجے نوٹس موصول ہوئی اور انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ ڈیرگاؤں کے این ایس کے مرکز سے رجوع ہوں لیکن اس نوٹس کی ہدایت کے حقائق کافی تکلیف دہ ہیں کیونکہ جس مرکز سے تفیض الدین کو رجوع ہونے کی ہدایت دی گئی ہے وہ ان کے گاؤں سے 366 کلو میٹر دور بالائی آسام کے گولاگھاٹ ضلع میں ہے اور انہیں دوسرے دن صبح 9 بجے اپنے افراد خاندان کے ساتھ مرکز سے رجوع ہونا تھا جس کے لئے انہوں نے اور ان کے پڑوسیوں نے ایک خانگی بس کرائے پر حاصل کی جس کا کرایہ 30 ہزار روپے ہوا۔ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں جس پنچایت کے تحت کام کرتا ہوں وہاں موجود ایک خاتون سے 13 ہزار روپے قرض لئے اور فوری طور پر بنگلور کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والے اپنے بیٹے نصیر الدین کو 5 ہزار روپے روانہ کئے لیکن وہ بنگلور سے آسام کےسے پہنچ سکتا ہے۔ نوٹس میں جو وقت دیا گیا وہ 24 گھنٹوں کا ہی تھا اور 24 گھنٹوں میں بنگلور سے گوہاٹی کا سفر صرف طیارہ کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتا تھا لیکن اس دن طیارہ کا کرایہ 16 ہزار روپے تھا۔ ایسے حالات میں نصیر الدین مقررہ وقت پر گھر ہی نہیں پہنچ پائے اور جب ٹرین کے ذریعہ وہ گھر پہنچے تو فہرست کی تجدید کی سنوائی کو گذرے ہوئے دو دن ہوچکے تھے۔

نصیر الدین 12 ویں جماعت کی کامیابی کے بعد گھرچھوڑ کر بنگلور کا رخ کیا کیونکہ چند ماہ قبل ہی تفیض الدین نے واضح کردیا تھا کہ اب وہ اپنے بیٹے کو مزید کالج روانہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے نصیر الدین نے بنگلور کا رخ کیا تھا تاکہ کسب معاش کو آسان بنایا جاسکے لیکن این آر سی کی جانب سے جس طرح کی نوٹسیں جاری کی گئیں اور اندرون 24 گھنٹے متعلقہ مراکز سے رجوع ہونے کی ہدایت دی گئی اس میں اپنے گھر سے متعلقہ مرکز تک کا سفر سےسینکڑوں کیلو میٹر کا رہا۔ حد تو یہ ہو گئی کہ ایک ہی خاندان کے افراد کو ایک ہی دن تین مختلف مقامات پر سنوائی کے لئے طلب کیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی کی کیفیت پائی گئی تھی۔

 ایسے ہی ایک کہانی 31 سالہ نظام الحق چودھری کی بھی ہے جو کہ ایک سرکاری اسکول میں کنٹراکٹ ٹیچر ہیں۔ انہیں بھی ایک ایسی نوٹس موصول ہوئی جس میں انہیں کمروپ ضلع میں موجود گاؤں سے 390 کیلو میٹر دور جورہاٹ ضلع کے تیتابور کے مرکز سے رجوع ہونے کی ہدایت دی گئی۔ اس ہدایت پر عمل آوری کے لئے ہمیں زمین و آسمان کے قلابے ملانے پڑے کیونکہ ایک تو 24 گھنٹوں کے اندرون تقرےباً 400 کیلو میٹر کی مسافت طے کرنا ہے تو دوسری جانب اپنی بس کرائے پر حاصل کرنا تھا۔ 400 کیلو میٹر جانے اور آنے کے لئے بس کا کرایہ 40 ہزار روپے دیا گیا جس میں 4 مختلف خاندانوں کے 40 افراد نے سفر کیا اور کرائے کو آپس میں برداشت کیا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود آسام کے سینکڑوں مسلم خاندانوں کو یہ ہنوز بھروسہ نہیں ہے کہ ان کے نام قطعی فہرست میں شامل ہوں گے یا نہیں اس کی بھی کوئی طمانیت نہیں دیگا۔ سینکڑوں افراد کو جہاں طویل مسافت طے کرکے متعلقہ مرکز تک پہنچنا کافی بار دکھائی دے رہا تھا وہیں ایک اور مصیبت یہ تھی کہ خاندان کے معمر افراد کو کسی اور مرکز پر رجوع ہونے کی ہدایت دی گئی تو اسی خاندان کے ان معمر افراد کا سہارا بننے والے نوجوان افراد کو کسی اور مرکز پر اپنا موقف پیش کرنا تھا۔