Monday, April 21, 2025
Homesliderاترپردیش میں مسلمان ووٹ کس کو دیں ، اقلیتوں کےلئے سخت امتحان

اترپردیش میں مسلمان ووٹ کس کو دیں ، اقلیتوں کےلئے سخت امتحان

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی پر جان لیوا حملے نے اترپردیش انتخابات کو گرما دیاہے اور اب ان انتحابات میں مسلم ووٹرس کا کردار کیا ہوگا اس پر ساری دنیا کی نظریں مرکوز ہوچکی ہیں کیونکہ جہاں جان لیوا حملہ میں رکن پارلیمنٹ کو کوئی نقصان نہیں ہوا وہیں اب مسلمانوں کو اترپردیش میں حق رائے دہی کا ایسا استعمال کرنے ہے کہ مسلم دشمن عناصر کو سخت پیغام جاسکے لیکن مسلم ووٹرس کےلئے اب سخت امتحان ہے کیونکہ ان کے سامنے ایس پی ، پی ایس پی اور مجلس کے امیدوار ہے ۔

ایک جانب جہاںمسلمانوں کے ووٹ ان تین جماعتوں کے امیدوارمنقسم کردیں گے وہیں زعفرانی ذہنیت کے ووٹرس کےلئے صرف بی جے پی کا ایک ہی امیدوار سامنے نظر آئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم ووٹ تین رخی راستوں پر بٹ جائیں گے اور زغفرانی ذہنیت کے تمام ووٹ ایک ہی سمت ڈالے جائیں گے۔

 اتر پردیش میں اگلے ہفتہ سے جن 403 سیٹوں پر انتخابات ہونے والے ہیں، ان میں سے تقریباً 57 پر مسلم ووٹروں کی زیادہ تعداد ہے۔مغربی یوپی، روہیل کھنڈ، ترائی اور کچھ مشرقی یوپی کی علاقوں میں مسلمانوں کی موجودگی مستحکم  ہے۔مسلمان روایتی طور پر ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس کا بنیادی ووٹ بینک رہے ہیں لیکن اس بار کانگریس سے ناراض مسلمانوں کےلئے میدان میں مجلس کے امیدوار نظرآئیں گے۔لہذا واضح طور پرمسلمان جو اترپردیش  کی کل آبادی کا پانچواں حصہ بناتے ہیں، ممکنہ طور پر ان حلقوں میں کلیدی کردار ادا کریں گے جہاں وہ عددی اعتبار سے برتر ہیں۔

ایس پی اور بی ایس پی سمیت کئی پارٹیاں آنے والے اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے پہلے ہی حکمت عملی بنا چکی ہیں۔اے آئی ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی کا ان میں سے کئی سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ صرف انتخابی میدان کو مزید جھنجوڑ دے گا اور ایس پی جیسی جماعتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔اس سے ہمیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں ان مسلم اکثریتی نشستوں پر ووٹ کیسے پڑے؟

پچھلے دو اسمبلی انتخابات کے موازنہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر حلقے 2012 اور 2017 کے درمیان ایس پی سے بی جے پی میں چلے گئے۔انتخابی تجزیہ نگاروں نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ریورس پولرائزیشن عنصر کی وجہ سے ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھگوا پارٹی نے پچھلے اسمبلی انتخابات میں کسی بھی سیٹ پر ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔اس کے باوجود اس نے 2017 میں 57 میں سے 37 سیٹیں حاصل کیں، جو اس نے 2012 میں جیتی گئی سیٹوں کی تعداد سے تین گنا زیادہ ہیں۔

کانگریس کے ساتھ اتحاد میں پچھلے انتخابات میں حصہ لینے والی ایس پی کو 11 سیٹوں کا نقصان ہوا جبکہ مایاوتی کی بی ایس پی کو تمام حلقوں میں مکمل طور پر شکست ہوئی۔2017 کے ووٹ شیئر کے اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ کس طرح بی ایس پی نے ایس پی کو نقصان پہنچایا۔اکھلیش یادو کی قیادت والی پارٹی نے 2017 میں اپنا ووٹ شیئر 25.8 فیصد سے بڑھا کر 29.6 فیصد کردیا تاہم بی ایس پی نے ایک بھی سیٹ نہ جیتنے کے باوجود تقریباً 19 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مایاوتی نے کئی حلقوں میں ایس پی کے امکانات کو خراب کردیا ہے جہاں مسلم ووٹوں کی اہمیت ہے اور اس بار مجلس بھی میدا ن میں ہے ۔دوسری طرف بی جے پی نے اپنے ووٹ شیئر میں نمایاں اضافہ دیکھا ہے جیسا کہ  2012 میں 21.6فیصد سے 2017 میں 38.8فیصد  تک اس نے ترقی کی ہے ۔تاہم مسلم اکثریتی سیٹوں پر بی جے پی کا ووٹ شیئر اس کے مجموعی ووٹ شیئر 39.67 فیصد سے تھوڑا کم تھا۔