فلسطین کے محصور علاقہ غزہ کی پٹی میں مسلسل احتجاج کے بعد اسرائیل نے غزہ پر فوج کشی کی دھمکیاں بڑھا دی ہیں۔ گذشتہ روز اسرائیلی کابینہ کا خصوصی اجلاس چار گھنٹے جاری رہا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ کی پٹی پر فوج کشی کرنے اور حماس کو “دردناک سزا” دینے کی دھمکی دی۔اس موقع پر اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے کہا کہ غزہ پر فوج کشی کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ کل اتوار کو اسرائیلی فوج اور قومی سلامتی کمیٹی کا بھی اجلاس ہوا جس میں غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف فوجی کارروائی کے امکانات پر غور کیا گیا۔
پیش آئندہ جمعہ اور حماس کا موقف
اسرائیلی حکومت کی طرف سے حماس کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے اور پیغام دے دیا ہے کہ اس نے غزہ میں پرتشدد مظاہرے نہ روکے تو جنگ یقینی ہوجائے گی۔ اسرائیل نے حماس کو پیغام بھیج دیا ہے۔ اگر حماس نے اسرائیل کے پیغام کو سمجھ لیا اور غزہ کی سرحد پر پرتشدد مظاہرے روک دیے تو جنگ کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مصری انٹلی جنس یف غزہ، رملہ اور تل ابیب کا دورہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ اسرائیل مصر کا موقف بھی جاننا چاہتا ہے۔مصر کی طرف سے غزہ کی پٹی میں حالات بہتر بنانے، فلسطینی دھڑوں میں مصالحت اور غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان طویل جنگ بندی کی کوششیں کی گئیں مگر وہ سود مند ثابت نہیں ہوسکیں۔اسرائیلی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور سیاسی سطح پر حماس کے خلاف غم وغصے کی وجہ قطر کی طرف سے غزہ کو ایندھن کی سپلائی ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ قطر کی معاونت سے غزہ کو ایندھن کی سپلائی سے وہاں پر جاری پرتشدد احتجاج میں کمی آسکتی ہے، تاہم گذشتہ جمعہ کو غزہ کی سرحد پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں 7 فلسطینیوں کی شہادت کے بعد صہیونی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے غزہ کو ایندھن کی سپلائی بھی بند کردی ہے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 2019ء کے آخر تک غزہ کی پٹی میں جنگ روکی جانی چاہیے تاکہ غزہ اور اسرائیلکے بیچ جاری کنکریٹ کی دیوار کی تعمیر مکمل کی جاسکے۔ اس دیوار کی تکمیل کے بعد فلسطینی مزاحمت کار سرنگوں کے ذریعے اسرائیلی کالونیوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکیں گے۔گذشتہ اگست میں اسرائیلی فوج نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ غزہ میں حماس کی قیادت کو قاتلانہ حملوں میں ہلاک کرنے کا پلان بنا رہی ہے۔ مگراس پلان پر اس لیے عمل درآمد نہ کیا گیاکہ اس سے غزہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی مصری مساعی متاثر ہو سکتی ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر حماس کی لیڈرشپ میں عقل سلیم ہوئی تو وہ ہمارے پیغام کو سنجیدگی سے لیں گے اور غزہ کی سرحد پر پرتشدد مظاہرے فوری بند کردیں گے۔ دوسری طرف حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کے بحران کے جزوی حل کو قبول نہیں کرے گی بلکہ اسرائیل کو غزہ پر عاید کردہ پابندیاں مکمل طورپر ختم کرنا ہوں گی۔