Monday, June 9, 2025
Homeخصوصی رپورٹاسلام میں بیوگی نہ عیب ہے اور نہ ہی نحوست

اسلام میں بیوگی نہ عیب ہے اور نہ ہی نحوست

- Advertisement -
- Advertisement -

 

اطہر معین

نکاح سے جڑی رسومات و توہمات میں ایک اور رسم مانجھے بٹھانا ہے۔ یہ رسم بھی ہم میں اغیار سے ہی در آئی ہے۔ مانجھوں میں نہ صرف لڑکی والوں پر ایک اضافی بوجھ پڑتا ہے بلکہ قریبی رشتہ داروں کو بھی ایک بار گراں اٹھانا پڑتا ہے۔ اس رسم کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بظاہر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ مانجھوں میں کوئی غیر اسلامی امور نہیں ہوتے ہیں اس لئے اس رسم کے ادا کرنے میں قباحت نہیں ہے۔ دراصل ہم نے جس قوم سے یہ رسم مستعار لی ہے ان کے پاس اس رسم کی ادائی کا ایک خاص مقصد ہے اور جو امور وہ انجام دیتے ہیں اس میں ان کی ضعف الاعتقادی کا بڑا دخل ہے۔ ہم میں اکثر لوگ یہ بہانہ کرڈالتے ہیں کہ درحقیقت عاقدہ (دلہن) کو شب زفاف(سہاگ رات) کیلئے سجانا و سنوارنا ہے اور شوہر کیلئے عورت کا بناؤ سنگھار جائز بلکہ مستحسن ہے اسلئے مانجھے بٹھانے میں کوئی عار نہیں۔ بے شک عورت کو صرف اپنے شوہر کیلئے سجنا دھجنا سزا وار ہے مگر اس کیلئے مخصوص رسومات کا اسیر بننے کی ضرورت نہیں۔ ان تقاریب میں شرکت کرنے والی خاندان اور پڑوس کی خواتین بھی بہت سج دھج کر آتی ہیں اور شائد ہی کوئی گھرانہ ایسا ہوگا جہاں غیر محرم سے پردہ کا لحاظ رکھا جاتا ہے جس کیوجہ سے مرد وزن کے اختلاط کے گناہوں کا وبال بھی ہمپر آن پڑتا ہے۔ بعض فقہا کے نزدیک تو عورت کو عورتوں کی محفل کیلئے بناؤ سنگھار کرنے اور سجنے دھجنے کی ممانعت ہے چونکہ دوسری خواتین شوہروں کے سامنے تمہاری خوبصورتی کا ذکر کردیں تو ان کے گناہ میں پڑنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ان تقاریب میں مرد و زن کے اختلاط کو نظر انداز کردینے کے نتائج ہم بھگتنے لگے ہیں چونکہ ایسی تقاریب عشق کی داستانیں جنم دیتی ہیں اور نتیجتاً ہمارے بچے آگے چل کر اپنی مرضی سے ولی کے بغیر عقد نکاح کر بیٹھتی ہیں۔ مانجھے بٹھاکر عاقدہ کو نکاح کے چند دنوں قبل سے تمام کام کاج سے رخصت دے دی جاتی ہے تاکہ اپنے ماں باپ سے جدائی کے غم کے دل و دماغ پر پڑنے والے اثرات سے اس کا چہرہ مرجھا نہ جائے اور کشش جاتی نہ رہے۔ نکاح سے کچھ دن قبل سے ہی لڑکی کے بناؤ سنگھار کا رواج بھی مسلمانوں کے ہندستان آنے کے بعد سے ہم میں شروع ہوا ہے۔ البتہ وداعی کے موقع پر عاقدہ کے بناؤ سنگھار کی مثالیں ہمیں دور نبوت سے ہی ملتی ہیں۔ طاق ایام کیلئے مانجھا بٹھانا اوراس میں انجام دئیے جانے والے امور دونوں ہی بالکلیہ طور پر غیر اسلامی ہیں۔ مانجھوں کیلئے خاص طور پر نہ صرف عاقدہ کو زرد ملبوسات پہنائے جاتے ہیں بلکہ اس رسم میں حصہ لینے والی زیادہ تر خواتین بھی اس بات کا خاص لحاظ رکھتی ہیں کہ ان کے لباس بھی زرد رنگ کے ہوں۔ علاوہ ازیں اس موقع پرصندل ہلدی کا لیپ لگایا جاتا ہے اور چکسہ بھی لگایا جاتا ہے اور کانچ کی چوڑیاں پہنائی جاتی ہیں۔ مانجھے بٹھانے میں صرف وہی عورتیں حصہ لیتی ہیں جن کے شوہر باحیات (سہاگن) ہوں اور جو با اولاد ہو۔ شوہر والی خواتین کیلئے برصغیر ہند میں ایک مخصوص اصطلاح ’’سہاگن‘‘ استعمال کی جاتی ہے۔ان تمام رسومات کے دوران عاقدہ پر بیواؤں کی پرچھائی پڑنے کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلام میں شوہر والی عورتوں اور غیر شوہر والی عورتوں میں ایسا کوئی امتیاز نہیں ہے اور نہ ہی بیوگی کوئی عیب یا نحوست ہے۔ یہ توہمات ہم میں اپنے ابنائے وطن سے ہی جاگزیں ہوئے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنین کو ان طریقوں اور تہذیب کو اختیار کرنے سے منع کیا ہے جو کسی ایک خاص دین یا تہذیب کے لوگوں کی شناخت بن جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت مدینہ منورہ کے بعد جب یہ معلوم ہوا کہ یہود بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو کوئی کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی میں سے سمجھا جاتا ہے۔ ہم ہیں کہ نہ صرف اغیار کی رسومات کو اختیار کرتے ہوئے اسے اپنے دین کا ہی حصہ سمجھ بیٹھے ہیں اور دوسری اقوام کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے بھی موحد رب اور محب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے۔ مانجھوں کی رسم کے دوران عاقدہ کی گود بھرائی بھی کی جاتی ہے اور یہ بھی خالصتاً غیر اسلامی رسم ہے اور ایسی رسومات کی جو ضعیف الاعقتادی پر مبنی ہوتے ہیں‘ علاقائی تمدن پر محمول کرتے ہوئے اجازت نہیں دی جاسکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عبادات میں بھی اغیار سے مماثلت کا رد کیا ہے اور ہم ہیں کہ غیر ضروری امور کو جو کسی خاص عقیدہ کے ماننے والوں میں ضعیف الاعتقادی سے بھرپور ہیں ہماری زندگیوں کا حصہ بنالیا ہے۔ یہ امور جو بے سروپا ہیں ا ن کی انجام دہی کو ہم اپنے اوپر لازم کرلیتے ہوئے اپنے رب کی خوشنودی سے محروم ہوجاتے ہیں بلکہ ساتھ ہی بیوہ عورتوں کو الگ تھلگ کرتے ہوئے ان کے دل دکھانے کا موجب بن کر ایک اور گناہ کے مرتکب بن جاتے ہیں۔ ہمارا یہ مزاج بن گیا ہے کہ ہم اپنے پیدا اور پالنے والے رب سے زیادہ مخلوقات سے ڈرنے لگے ہیں اور یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اگر ہم ان احتیاطات کا خیال نہیں رکھیں گے جو ہم میں نسل در نسل چلے آرہے ہیں تو خدا نخواستہ عاقدین کی ازدواجی زندگیاں مشکلات سے گھر جائیں گی۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہم کچھ مخصوص ایام کو بھی منحوس سمجھ بیٹھے ہیں اور ان ایام میں عقد نکاح کو انجام دینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہر دن اللہ کے ہیں اور کوئی دن بھی منحوس نہیں ہے۔ اسلام میں بدشگونی کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ مانجھے کے لئے طاق ایام کا تعین کرنا اور ہلدی وغیرہ لگادینے کے بعد گھر سے باہر نکلنے پر یہ وہم رکھنا کہ شیاطین وارد ہوجاتے ہیں بدعقیدگی کے سواء کچھ نہیں ہے۔