کابل ۔ امریکہ کی طویل ترین جنگ بالآخر اس وقت ختم ہوئی جب گزشتہ رات فوجیوں کی آٖخری جماعت نے 20 سال کی فوجی کارروائیوں کے بعد افغانستان چھوڑدیا۔ 82 ویں ایئربورن ڈویژن کے کمانڈر کرس ڈوناہوآخری امریکی فوجی تھے جنہوں نے افغان سرزمین سے اپنے قدم اٹھالئے جب سی -17 گلوب ماسٹر III کابل ایرپورٹ سے نکل گیا۔
ٹویٹر پر فوجی کی تصویر شائع کرتے ہوئے ڈیارٹمنٹ آف ڈیفنس نے لکھا افغانستان سے نکلنے والا آخری امریکی فوجی: 30 اگست 2021 کو امریکی ایر فورس سی 17 پر 82 ویں ایربورن ڈویژن بورڈ کے کمانڈنگ جنرل ، میجر جنرل کرس ڈوناہو نے کابل میں امریکی مشن کو ختم کیا۔یہ پرواز افغانستان میں سفیر راس ولسن کو بھی گھر واپس لے گئی کیونکہ امریکی فوجیوں کا مکمل انخلا 31 اگست کی ڈیڈ لائن کے اختتام سے قبل ہوا جو کہ صدر جو بائیڈن کی طرف سے امریکہ کی طویل ترین جنگ کے لیے وقت کا مطالبہ تھا۔
امریکی افواج 2001 میں نائن الیون کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے افغانستان میں داخل ہوئیں اور طالبان کو بے دخل کیا۔ اگلے برسوں میں امریکی افواج ملک میں رہیں اور انہوں نے مالی مدد فراہم کرکے افغان فورسز کو باغیوں کے خلاف تربیت دے کر قوم کی تعمیر کا کام شروع کیا۔تاہم 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کی حکمرانی واپس آگئی یہاں تک کہ امریکہ اور اسلام پسند گروپ کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے مطابق غیر ملکی افواج نے افغانستان سے انخلا شروع کردیا۔
فروری 2020 کے معاہدے میں واشنگٹن نے اپنی افواج کے انخلا کا عزم کیا جبکہ طالبان نے اس دوران امریکی فوجیوں پر حملہ نہ کرنے پر اتفاق کیا۔اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ جنگ زدہ ملک کو اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور این جی اوز جیسی آزاد تنظیموں کے ذریعے انسانی امداد فراہم کرتا رہے گا۔
امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی کہا ہے کہ آخری امریکی فوجی افغان وقت کے مطابق رات 9 بجے کابل ایرپورٹ سے نکلا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا اور کہا کہ آخری امریکی فوجی افغان وقت کے مطابق رات 9 بجے کابل طیاران گاہ سے روانہ ہوا اور ہمارے ملک نے مکمل آزادی حاصل کرلی ، الحمدللہ۔ایک اور سینئر طالبان عہدیدار انس حقانی نے بھی اس موقع پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں ان تاریخی لمحات کا مشاہدہ کرنے پر فخر ہے۔