واشنگٹن ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شام سے فوج کو واپس گھر بلانے کے دعوے کے بر خلاف پینٹاگون کے صدر نے کہا ہے کہ امریکی فوج شام سے نکل کر عراق جائے گی اور داعش کے خلاف فوجی کارروائی جاری رہے گا۔رپورٹ کے مطابق امریکہ کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے افغانستان پہنچنے سے قبل کہا کہ ہماری فوج گھر نہیں آرہی اور امریکہ مشکلات کا شکار مشرق وسطیٰ کو نہیں چھوڑ رہا۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ موجودہ منصوبوں کے مطابق داعش کے خلاف کرد اتحادیوں کے ساتھ شام میں امریکہ کی جنگ کو اب امریکی فورسز پڑوسی ملک عراق سے جاری رکھیں گے۔ان کے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں کی جانب سے امریکی فوج کا عراق سے شام میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے سوال پر انہو ں نے کہا کہ اس بارے میں وقت کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر نے ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی سپاہی اب میدان جنگ یا جنگ بندی کے زونز میں نہیں ہیں، ہم نے تیل کو محفوظ بنادیا ہے، اپنے سپاہیوں کو گھر واپس لارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب ہمارے گھر آنے کا وقت آگیا ہے۔
مارک ایسپر نے کہا کہ انہوں نے اپنے عراقی ہم منصب سے ایک ہزار فوجیوں کو شام سے مغربی عراق منتقل کرنے کے حوالے سے بات کی ہے۔دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور نگراں چیف آف اسٹاف مک ملوانے نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج گھر واپس آئے گی، فی الوقت انہیں خطرے سے نکالنے کا فوری حل عراق بھیجنا تھا۔واضح رہے کہ ترکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوج کو وہاں سے بے دخل کرنے کے اچانک فیصلے کے فوری بعد شمالی شام میں کردوں، جسے وہ دہشت گرد قرار دیتا ہے، کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کردیا تھا۔
کرد جنگجو شام میں امریکی اتحادی تھے اسی لیے ٹرمپ کے اچانک فیصلے کو واشنگٹن میں اپنے اتحادیوں سے دھوکے سے تعبیر کیا گیا۔ٹرمپ کے فیصلے کو کرد جنگجوؤں نے بھی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ، تاہم امریکی صدر نے اس تاثر کومسترد کردیا۔
ترکی کا کئی برسوں سے یہ موقف ہے کہ شام میں موجود کرد جنگجو دہشت گرد ہمارے ملک میں انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ بننے سے روکنا ہے۔رواں ہفتے ترک صدر طیب اردوغان اور امریکی نائب صدر مائیک پینس کے درمیان مذاکرات میں ہوئے تھے کہ شام کی شمال مشرقی سرحد پر ترکی کے محفوظ مقام کی تعمیر کرنے کے منصوبے کے لیے کرد جنگجووں کی دستبرداری تک 5 روزہ جنگ بندی ہوگی۔
جنگ بندی معاہدے کے بعد سرحد میں حالات بہتر ہوئے تھے تاہم ایک مرتبہ پھرجھڑپ ہوئی جس کے ترک وزارت دفاع نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ شمالی شام میں جنگ بندی کے باوجود کرد ملیشیا نے تل ابیض میں ترک فوج پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک جوان جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوگیا۔