Monday, June 9, 2025
Homeخصوصی رپورٹانگریزی اسکولس نے صباحیہ مدرسوں کا خاتمہ کردیا

انگریزی اسکولس نے صباحیہ مدرسوں کا خاتمہ کردیا

- Advertisement -
- Advertisement -

اطہر معین
علمائے کرام کی دور اندیشی کو سلام جنہوں نے سر سید احمد خان کی انگریزی تعلیم کی تحریک پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انگریزی زبان کے نام پر مسلمانوں میں مغربی تہذیب کو جاگزیں کردیا جائے گا۔ اس دور کے علمائے کرام نے اپنا یہ موقف واضح کردیا تھا کہ وہ انگریزی بلکہ کسی بھی زبان کے مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی زبان کے اس کے کلچر میں درس و تدریس کی بجائے اسلامی کلچر میں درس و تدریس کا نظم کیا جائے جس کیلئے ایسے اصحاب کا انتخاب کیا جائے جو اسلامی افکار کے حامل ہوں اور وہ اس زبان کے تہذیبی اثرات کو قبول کرنے کی بجائے صرف زبان کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوجائیں اور ان کے ذریعہ ملت میں انگریزی کی ترویج و اشاعت کی جائے تاکہ اس زبان کے اثرات ملت اسلامیہ میں سرایت نہ کرجائیں۔ انگریزی زبان کا کلچر مغرب زدہ ہے جوبے حیائی‘ بازاریت اور شرک سے معروف ہے بلکہ اسلامی اقدار و تہذیب کے یکسر مغائر ہے۔ انگریزی سے ہماری رغبت بلکہ مرعوبیت کے نتائج آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس کو دہوں قبل ہی ہمارے علمائے کرام نے محسوس کرلیا تھا مگر ہم نے انگریزی تعلیم سے شعور بیدار ہونے کا خواب دیکھ کر لاشعوری کی چادر اوڑھ لئے۔ ہمارے علمائے کرام نے انگریزی زبان کو اس کے کلچر میں سیکھنے کی مخالفت کی تھی مگر آج صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے عیسائی مشنریوں کے اسکولس میں داخلہ دلواتے ہوئے فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔ ان اسکولس میں جب سے ہمارے بچے پڑھنا شروع کیا ہے تب سے ہی ہماری مساجد میں چلنے والے صباحی مدرسوں کے خاتمہ کا آغاز ہوگیا ہے۔ آج یہ حالت ہے کہ شاذ ونادر ہی کسی مسجد میں صباحی مدرسہ چلایا جاتا ہے چونکہ ان مدرسوں میں ہمارے بچے اب آنے نہیں لگے ہیں۔ عیسائی مشنریوں کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکولس کے انتظامیہ نے جب یہ دیکھا کہ ہمارے پاس آنے سے پہلے مسلم بچے اپنے گھر کے پاس کی مسجد کے مدرسہ سے قرآن حکیم سیکھ کر آرہے ہیں جہاں ن بچوں کو نہ صرف تجوید کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا درس دیا جاتا ہے بلکہ انہیں ہر کام کے آغاز و اختتام پر کی جانے والی دعائیں بھی سکھلائی جاتی ہے اور اسلامی آداب سے ان کی شخصیت کو نکھارا جاتا ہے۔ مسلم بچوں کو ان صباحیہ مدرسوں سے دور رکھنے کیلئے ان عیسائی مشنریوں کے اسکولس نے اپنے اوقات کا تعین ایسا کردیا کہ بچوں کو فرصت ہی نہ ملے۔ ہمارے ماہرین تعلیم نے اسکولس کے اوقات کا تعین بہت سے پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا تھا۔ آج سے 10-20 برس پہلے اسکولس کا آغاز دن میں 10:00 بجے سے ہوا کرتا تھا اور شام 4:00 بجے اسکول کے اوقات ختم ہوجایا کرتے تھے۔ عیسائی مشنریوں کے اسکولس نے ایک منظم سازش کے تحت اسکولس کے اوقات کار میں تبدیلی کردی جس کا نوٹ نہ حکومتوں نے لیا اور نہ ہی اولیائے طلبہ نے لیا۔ عیسائی مشنریوں کے اسکولوں کی تقلید کرنے والے مسلم انتظامیہ کے اسکولس بھی آج صبح 8:20 بجے صبح سے شروع ہوتے ہیں۔ اسکولس کے اوقات 8:20 بجے سے رکھے جانے کی وجہ سے بچوں کو 7:00 بجے صبح سے گھرسے روانہ کردینا پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے والدین نے اپنے بچوں کو فجر کے ساتھ ہی شروع ہونے والے صباحیہ مدرسوں کو بھیجنا بند کردیا۔ صباحیہ مدرسوں کی مسدودی کا ملت کے بہی خواہوں نے بھی نوٹ نہیں لیا اور نہ ہی اسکولس کے انتظامیہ کو مجبور کیا گیاکہ سرکاری طور پر طئے شدہ شیڈول پر عمل کیا جائے۔ کچھ دینی حمیت رکھنے والے گھرانوں نے صباحیہ مدرسوں کا متبادل ڈھونڈھ لیا تھا اور اپنے گھر پر بچوں کو عربی کا استاذ(قرآن حکیم پڑھانے ) مقرر کردیا۔ عیسائی مشنریوں کو جب یہ پتہ چلا کہ کچھ والدین پھر بھی اپنے بچوں کو قرآن کی تلاوت اور دعائیں سکھارہے ہیں تو پختہ اور معیاری تعلیم کے نام پر بچوں کے نصاب کو ضخیم کردیا گیا۔ انہیں اضافی نصاب سرگرمیوں میں ملوث کردیا گیا اور ہوم ورک اتنا بڑھا دیا گیا کہ ہوم ورک انجام دیتے ہوئے نہ صرف بچہ تھک جائے بلکہ بچہ کو ہوم ورک کرواتے ہوئے ماں اور بڑے بھائی‘ بہن کو بھی کوئی فاضل وقت ملنے نہ پائے کہ وہ بچوں کو دین کی باتیں سکھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے گھر پر عربی استاذ بھی آنا بند ہوگئے ہیں اور جن گھروں پر اب بھی استاذ رکھے گئے ہیں ان سے ہر پندرہ دن میں کہا جاتاہے کہ مولوی صاحب اب چار چھ دن نہ آئیں چونکہ بچہ کو یونٹ ٹسٹ کی یا سہ ماہی امتحان کی تیاری کرنا ہے۔ عیسائی مشنریوں کے اسکولس میں پانچویں جماعت تک سرکاری نصاب نہیں پڑھایا جاتا بلکہ خانگی پبلشرس کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو مخصوص اہداف رکھ کر مواد تیار کرتی ہیں۔ ان مضامین میں غیر محسوس طور پر اسلامی عقائد و نظریات کے منافی پیام دیا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان‘ خنزیر کو نہایت ہی نجس مانتے ہیں تو بچوں کو P for Pig سکھایا جانے لگا۔ بڑی جماعتوں میں خنزیر سے موسوم کئی کہانیاں رکھی گئیں تاکہ ان میں خنزیر سے جو چڑ ہے وہ ختم ہوجائے۔ ہمارے بچپن میں اگر کوئی اس نجس جانور کا نام لے لیتا تو ہمارے بزرگ اس کو کلی کرواتے تھے مگر ہمارے بچے دن میں کئی بار P for Pig کی رٹ لگاتے ہیں۔ امتحانات کے قریب بچوں کو امتحان میں کامیابی کیلئے اسکولس میں موجود گرجا گھر کو لے جایا جاتا ہے اور ان سے خصوصی دعائیں کروائی جاتی ہیں۔ ڈراموں میں ہمارے بچوں کو یسوع مسیح کا کردار دیا جاتا ہے اور ہمارے والدین بڑی ہی لگن کے ساتھ ان کرداروں کی ریہر سل کرواتے ہیں۔ اسکول کے انیول ڈے فنکشن میں ہمارے بچوں کو رقص کروایا جاتا ہے۔ اب تو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نام پر انہیں کئی ہندو دیوی دیوتاؤں کا روپ دھارن کروایا جاتا ہے۔ بعض مسلم انتظامیہ کے اسکولس بھی ایسے ہیں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نام پر دسہرہ و دیپاولی تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں اور بچوں کو ہندو دیوی دیوتاؤں کے کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ عیسائی مشنری کے اسکول کی ٹیچر بچوں کو ذہن میں یہ بات ڈالتی ہے کہ روزہ رہنے سے جسم کمزور و لاغر ہوجاتا ہے اور جسم کمزور ہوجائے تو ذہن بھی کمزور ہوجاتا ہے اور نتیجہ میں امتحان میں تمہیں نمبرات کم آئیں گے اس لئے کم از کم امتحانات کے دنوں میں روزہ نہ رکھا جائے تو بہتر رہے گا۔ والدین کو لوٹنے والے ان اسکولس کی ٹیچرس مگر چوں کو ان کی برتھ ڈے یاد دلانا نہیں بھولتی‘ حتیٰ کہ اپنے جیب پر بار ڈالتے ہوئے انہیں ایک چاکلیٹ بھی دے دیا کرتی ہے۔