Tuesday, June 10, 2025
Homeدیگرمفاد عامہاوقافی اداروں اور وقف بورڈ کے حسابات سے متعلق قانون وقف کی...

اوقافی اداروں اور وقف بورڈ کے حسابات سے متعلق قانون وقف کی دفعات عملاً کالعدم!

قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وقف بورڈ نے متولیوں کو اپنے طور پرآڈٹ کروانے کی اجازت دے دی
قانون کے مطابق عدم تنقیح کے باعث بے قاعدگیوں کا پتہ چلانا ممکن نہیں۔ متولیوں کی جانب سے پیش کردہ حسابات کی تنقیح اور تحقیقات کروانے کی ضرورت
حیدرآباد۔ کیا ریاستی وقف بورڈ س کو جو پارلیمنٹ کے منظورہ قانون کے تحت کام انجام دیتے ہیں، قانون وقف کی مخصوص دفعات کو کالعدم کردینے کا اختیار رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو ریاستی و مرکزی حکومتیں جن پر وقف بورڈس کی کارکردگی کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہیں وہ اب تک غافل کیوں ہیں؟ ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ملی تنظیمیں اور اوقاف کے جہد کار بھی اس مسئلہ کو تاحال مؤثر انداز میں پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے وقف بورڈ س نے اوقافی اداروں اور وقف بورڈ کے حسابات سے متعلق قانون وقف کی دفعات کو عملاً کالعدم کردیا ہے۔ دونوں بورڈس نے قانون کی ایک نہیں کئی دفعات پر عمل آوری کو ہی فراموش کردیا ہے اور یہ دفعات نہایت ہی اہم ہیں چونکہ ہم جن دفعات کا ذکر کررہے ہیں وہ وقف بورڈ س کے مالیہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان دفعات کو کالعدم کردینے کے نتیجہ میں مالی بے قاعدگیوں کا پتہ چلایا ہی نہیں جاسکتا ہے ۔ قانون وقف 1995 مرممہ کی یہ دفعات وقف بورڈ کے موازنہ اور اوقافی ادارں کے حسابات سے متعلق ہیں۔ قانون وقف کی دفعات 44, 45, 46, 47, 48 & 49 اوقافی اداروں کے موازنہ اور ان کی تنقیح سے متعلق ہیں جبکہ دفعات 78, 79, 80 & 81 کا تعلق وقف بورڈ کے موانہ سے اور ان کی تنقیح سے متعلق ہے۔ مذکورہ بالا دفعات پر عمل آوری کے ضمن میں نہ ہی کبھی منتخبہ بورڈ نے سنجیدگی سے کام لیا اور نہ ہی اسپیشل آفیسرس اور مجاز اتھاریٹی کے دورِ سربراہی میں اس جانب توجہ مبذول کروائی گئی ۔ قانون وقف کی دفعات 44 تا 49 کی رو سے ہر اوقافی ادارہ کے متولی کو مالی سال کے آغاز سے کم از کم ایک ماہ قبل آنے والے مالی سال کے لئے اپنے ادارہ کا بجٹ تیار کرتے ہوئے وقف بورڈ کو پیش کرے جس میں امکانی آمدنی اور مصارف کو ظاہر کیا جائے۔ اور جو اوقافی ادارے ، وقف بورڈ کی راست نگرانی میں ہوتے ہیں ان کے موازنوں کی تیاری کی ذمہ داری وقف بورڈ کے چیف منسٹر پر عائد ہوتی ہیں۔ دفعہ 46 کی رو سے ہر متولی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یکم جولائی سے قبل /31 مارچ کو اختتام پذیر گذشتہ مالی سال کے دوران آمدنی و مصارف کے تختہ جات تیار کرلے ۔ قانون وقف کی دفعہ 47 یہ کہتی ہے کہ دفعہ 46 کے تحت بورڈ کو پیش کردہ اکاؤنٹس کی تنقیح کروائے۔ اس دفعہ کی رو سے ایسے اوقافی ادارے جن کی کوئی آمدنی نہیں ہے یا پھر 50,000 روپے سالانہ سے زائد نہیں ہے ان میں دو فیصد اداروں کی بورڈ کے مقرر کردہ آڈیٹر کے ذریعہ سالانہ تنقیح کروائے اور ایسے ادارے جن کی آمدنی سالانہ 50,000 روپے سے زائد ہے ، ان کی سالانہ یا قواعد میں مقررہ معیاد پر ریاستی حکومت کے مقرر کردہ آڈیٹرس پیانل سے ایک آڈیٹر کے ذریعہ تنقیح کروائے۔ آڈیٹر کو اپنی رپورٹ وقف بورڈکو پیش کرنا ہوگا اور اسے اپنی رپورٹ میں تمام بے قاعدگیوں، غیر قانونی اور نامناسب مصارف یا غفلت یا بدنظمی کے باعث رقومات یا جائیدادوں کی بازیابی میں ناکامی کی صراحت کرے اور یہ نشاندہی بھی کرے کہ اس کی دانست میں ایسے نامناسب مصارف اور ناکامیوں کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ آڈیٹرس کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد وقف بورڈ کو اس کاجائزہ لینا ہوگا اور رپورٹ میں صراحت کردہ امور سے متعلق کسی بھی شخص سے صراحت طلب کرنا ہوگا اور مناسب احکام بشمول قانون وقف کی کی دفعہ 47 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت آڈیٹر کی جانب سے تصدیق شدہ رقم کی بازیابی کے لئے احکام جاری کرے۔ایسے کسی فرد کو آڈیٹر کی نشاندہی کردہ رقومات کی بازیابی کے لئے اندرون دو ماہ وقف بورڈ کو ادائی کرنا ہوگا بصورت دیگر متعلقہ فرد کو سماعت کا موقع فراہم کرتے ہوئے لینڈ ریونیو کے بقایا جات کی وصولی کی طرح وصولی کرنی ہوگی۔ قانون وقف 1995 ء کی منظوری کے بعد شائد ہی کبھی وقف بورڈ نے مذکورہ دفعات میں پیش کردہ طریقۂ کار کے مطابق اوقافی اداروں کے حسابات کی تنقیح کروایا ہوگا، البتہ سال 2006 ء میں وقف بورڈ نے مذکورہ دفعات کی رو سے اوقافی اداروں کے متولیوں کے موسومہ ایک میمو جاری کرتے ہوئے وقف بورڈ کے نامزد کردہ آڈیٹرس کے ذریعہ اپنے حسابات کی تنقیح کروانے کی ہدایت دی تھی جس پر متحدہ آندھراپردیش کے تمام اہم اوقافی اداروں کے متولیان اور انتظامی کمیٹیاں پریشان ہوگئے اور وقف بورڈ کو اس سے باز رکھنے انجمن سجادگان، متولیان و خدمت گذاران وقف نے ایک محضر مورخہ 12-06-2007 وقف بورڈ کو پیش کرتے ہوئے وقف بورڈ سے درخواست کی کہ وہ بورڈ کے مقرر کردہ آڈیٹرس کی بجائے انہیں اپنے طور پر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کے ذریعہ اپنے حسابات کی تنقیح کروانے کی اجازت دی جائے چونکہ انہیں وقف بورڈ کے مقرر کردہ آڈیٹرس کو مشاہرہ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ انہیں اپنے چارٹرڈ آڈیٹرس کے ذریعہ تنقیح کروانے کی صورت میں معاوضہ ادا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ انجمن کی اس درخواست کوجو قانون وقف کے مغائر تھی، مسترد کردینے کی بجائے وقف بورڈ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اوقافی اداروں کے متولیوں کو اپنے طور پر آڈٹ کردہ رپورٹ پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ یہی نہیں بلکہ وقف بورڈ نے اس عرصہ میں کبھی یہ زحمت گوارہ نہیں کی کہ متولیوں اور انتظامی کمیٹیوں کی جانب سے پیش کردہ حسابات کی کم از کم اپنے آڈیٹرس کے ذریعہ جانچ کروائے اور حسابات میں تغلب کرنے والے متولیوں کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کے نتیجہ میں کئی متولیوں نے من مانی حسابات پیش کرتے ہوئے داخل کردئیے۔ اگر گذشتہ برسوں میں متولیوں کی جانب سے پیش کردہ آڈٹ رپورٹس کی کسی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعہ تحقیق کروائی جائے تو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بیشتر متولیوں نے کبھی بھی کسی چارٹرڈ آڈیٹر کے ذریعہ اپنے حسابات کی تنقیح کروائی بلکہ اپنے طور پر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کے لیٹر ہیڈس طبع کرواتے ہوئے اور ان کی جعلی دستخطیں کرتے ہوئے حسابات پیش کئے ہیں۔ متولیوں کو اپنے طور پر حسابات پیش کرنے کی اجازت دینے کے باعث ایک بھی اوقافی ادارہ کی بدعنوانیوں اور مالی بے قاعدگیوں کا نہ ہی پتہ چلایا گیا اور نہ ہی چلایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر متولیوں نے اپنے حسابات سالانہ پیش ہی نہیں کئے۔ جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ وقف بورڈ کی تشکیل سے عین قبل تقریباً 200 متولیوں نے اپنے حسابات پیش کرتے ہوئے وقف فنڈ ادا کیا ہے۔ سرکاری پیانل کے آڈیٹرس کے ذریعہ اوقافی اداروں کے حسابات کی تنقیح نہ کروانے کے باعث ممکن ہے کہ کئی اوقافی اداروں کی اصل آمدنی کو ظاہر ہی نہیں کیا گیا ہو اور من مانی حسابات پیش کئے گئے ہوں۔ اسی طرح وقف بورڈ نے بھی اپنا بجٹ پیش کرنے اور اپنے حسابات کی تنقیح کروانے میں کوتاہی کی ہے۔ بورڈ کو بھی قانون وقف کی رو سے آنے والی مالی سال کے لئے امکانی آمدنی اور مصارف کا تخمینہ تیار کرتے ہوئے بجٹ پیش کرنا ہوتا ہے اور ریاستی حکومت کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ وقف بورڈ سے بجٹ موصول ہونے پر ریاستی حکومت کو اس کا جائزہ لینا ہوگا اور اس کی دانست میں مناسب ترامیم، تبدیلیاں اور اصلاحات کی تجاویز پیش کرے ۔ بورڈ کو اپنے حسابات سے متعلق اکاؤنٹ بکس اور دیگر کھاتے جات رکھے اور بورڈ کے حسابات کی سالانہ تنقیح ریاستی حکومت کے مقرر کردہ آڈیٹر کے ذریعہ کروائے ۔ قانون وقف کی رو سے آڈیٹر کو اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو پیش کرنا ہوگا اور متولیوں کے حسابات کی تنقیح کے بعد اپنی رپورٹ کی طرح اس میں بھی ان تمام امور کی نشاندہی کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدرنشین وقف بورڈ جناب محمد سلیم جو یہ باور کرواتے ہوئے کبھی نہیں تھکتے کہ وہ دیانتداری اور ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی بے قاعدگی کو برداشت نہیں کریں گے، وہ کسی دباؤ کے آگے جھکے بغیر اوقافی اداروں اور وقف بورڈ کے حسابات کی قانون وقف کے مطابق تنقیح کروائیں گے اور بے قاعدگیوں کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف بلا لحاظ امتیاز کارروائی کرتے ہوئے اپنے وعدہ کو وفا کریں گے۔