نئی دہلی: حکومت نے پیر کو لوک سبھا میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اعتراض کے با وجود، متنازعہ شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) 2019 کوپیش کیا۔اس پر اپوزیشن جما عتوں نے اس بل کو مذ ہب کی بنیاد پر شہریت طئے کر کے آئین کے بنیادی مقصد کو مجروح کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس سے آئین کے آرٹیکل 5,10,14,15 اور 26کی خلاف ورزی ہو تی ہے۔
اس بل کو پیش کرتے ہوئے مر کزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپوزیشن کے ارکان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ”میں یقین دہانی کراتا ہوں کہ اس بل سے ہندوستانی آئین کے کسی بھی آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں ہو ئی ہے اور کسی بھی شہری کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس بل کے تحت پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش میں ظلم و ستم سے فرار ہونے والے ہندوؤں،عیسائیوں،سکھوں،پارسیوں جینوں اور بدھسٹوں کو ہندوستانی قومیت دینے کی کو شش کی گئی ہے۔وزیر نے کہا کہ پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش کے آئین کا تجزیہ کرنے کے بعد بل پیش کیا گیا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے بعد 1950 میں طئے پانے والے نہرو۔لیاقت سمجھوتے کا ذکر کرتے ہوئے شاہ نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر اتفاق کیا گیا تھا،لیکن صرف ہندوستان نے اس پر عمل کیا،لیکن ہندو،عیسائی،سکھ،پارسیوں،جینوں اور بدھسٹوں کو پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش میں مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔یہ بل ان اقلیتوں کے لئے ہے،جو پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش میں مذ ہبی ظلم و ستم کا شکار ہیں“۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ تین اسلامی ممالک میں مسلم برادری پر ظلم نہیں کیا گیا،بل میں خاص طور پر چھ مذہبی مظلوم اقلیتوں کو شہریت دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستا ن میں مذ ہبی طلم و ستم کے بعد ہندوستان میں نقل مکانی کرنے والی چھ اقلیتی برادری کے افراد کو اس بل کے مطابق ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔مناسب درجہ بندی کی بنیاد پر انہیں شہریت دی جا رہی ہے۔یہ بل ہندوستانی آئین کے آر ٹیکل 14کی خلاف ورزی نہیں کر تاہے“۔
امیت شاہ نے کہا کہ ”یہ بل مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے اور اگر کوئی مسلمان،ہندوستان میں شہریت چاہتا ہے تو،اس کو بل کے آرٹیکل کے مطابق شہریت فراہم کی جائے گی۔وزیر داخلہ کے اس جواب سے اپوزیشن جماعتیں مطمئین نہیں ہو ئیں اور انہوں نے بل پیش کرنے کی تجویز پر ووتوں کی تقسیم کا مطالبہ کیا جسے 82کے مقابلے 293ووٹوں سے منظور کر لیا گیا اور امیت شاہ نے بل پیش کیا۔اپوزیشن کی بڑی جماعتوں،بشمول کانگریس،ترنمول کانگریس،انقلابی سوشلسٹ پارٹی،ڈراویڈ منیترا کڑ گم، کل ہند مجلس اتحاد المسلمین اور انڈین یونین مسلم لیگ نے بل کی مخالفت کی۔
ایکٹ کے موجودہ دفعات کے تحت،ہندو،سکھ،بودھ،جین،پارسی یا افغانستان، پاکستان یا بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے عیسائی برادریوں کے تارکین وطن،جو بغیر کسی سفری دستاویزات کے ہندوستان میں داخل ہوئے یا ان کی دستاویزات کی معیاد ختم ہو گئی ہے،وہ غیر قانونی تارکین وطن سمجھے جاتے ہیں اور ایکٹ کے سیکشن 5یا سیکشن 6کے تحت ہندوستانی شہریت کے لئے درخواست دینے کے لئے نا اہل ہیں۔
مر کز نے ان تارکین وطن کو پاسپورٹ (انٹری ان انڈیا) ایکٹ،1920 اور غیر ملکی ایکٹ 1946مضر عزاب سے بری الذمہ قرار دیا اور 7ستمبر 2015کو نوٹیفکیشن اور 18جولائی 2016کے قواعد و احکامات کو منسوخ کر دیا۔اس کے بعد،مرکز نے انہیں 8جنوری 2016اور 14ستمبر 2016کے احکامات کے ذریعہ ہندوستان میں قیام کے لئے طویل مدتی ویزا کے اہل بنا دیا۔اب حکومت،بل کے ذریعہ،ان تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت کے اہل بنانے کی تجویز رکھتی ہے۔
شاہ نے کہا اس مقصد کے لئے،مر کزی حکومت یا اس کی جانب سے متعین کردہ اتھارئتی اس طرح کی شرائط،پابندیوں اور طریقے کے مطابق،نیچر لائزیشن کی رجسٹریشن کے لئے ایک سرٹیفکیٹ یا سند فراہم کرے گی۔مذ کورہ بل میں چھ برادریوں سے آنے والے تارکین وطن کو استثنیٰ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے،تاکہ ان کی ہجرت یا شہریت کی حیثیت کے سلسلے میں ان کے کلاف کو ئی کارروائی انہیں ہندوستانی شہریت کے لئے در خواست دینے سے نہ روک سکے۔
بل میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ تین ممالک سے تعلق رکھنے والی چھ اقلیتی برادریوں سے آنے والے تارکین وطن فطری طور پر شہریت حاصل کرنے کے اہل ہوں گے،اگر وہ موجودہ گیارہ سال کی بجائے پانچ سال تک ہندوستان میں اپنی رہائش قائم کر سکیں۔
اس بل کی پیشکشی کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے اعتراض جتاتے ہوئے ہنگامہ کر دیا۔کانگریس پارٹی کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے اس بل کو پتعرف کرانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کو رجعت پسندانہ قرار دینے میں ان کی کو ئی گنجائش نہیں ہے،جو ملک کی اقلیتوں کے خلاف ہے۔انہوں نے کہاکہ مجوزہ قانون نے آئین کی پیش گوئی کی خلاف ورزی کی ہے جو ہندوستان کو ایک سماجی اور سیکیولر جمہوریہ کے طور پر قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کا تصور ملک کے پہلے وزیر آعظم جواہرلال نہرو نے پیش کیا تھا۔
ترنمول کانگریس کی سوگت رائے نے یاد دلایا کہا،وزیر داخلہ نے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370کی منسوخی کے وقت پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ یہ ملک میں ”ایک قانون“”ایک راشٹر“ہو گا،لیکن اب ”آپ ایسا قانون لا رہے ہیں،جو مختلف ہے“۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ بل متنازعہ اور غیر آئینی ہے اور آرٹیکل 14کی خلاف ورزی ہے،جو تمام شہریوں کو مساوات فراہم کرتا ہے“۔
اسی طرح کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے کہا کہ یہ بل ملک کے عوام کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے،کیونکہ مذہب قانون کا تعین کر تا تھا۔
کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد اسد الدین اویسی نے کہا کہ ’]سیکیولرزم تحفظ کا بنیادی ڈھانچہ ہے اور یہ بل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
لوک سبھا میں اویسی نے کہا کہ ”میں صرف چار نکات پر بات کروں گا،اور یہ لوگ جواب نہیں دے پائیں گے۔سب سے پہلے،سیکیولرزم اس ملک کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے،جسے کیسوانند بھارتی کیس میں بیان کیا گیا،جس کو آئین کے آرٹیکل 14میں بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا،ہم اس لئے اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں،کیونکہ اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو تی ہے۔
تیسرا،ہمارے ملک میں سنگل شہریت کا خیال لاگو ہوتا ہے۔یہ بل لا کر،آپ (حکمراں جماعت)،سربانند سونووال سپریم کورٹ کیس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔کانگریس نے اس بل کو مسلمانوں کے کلاف بتا یا ہے،لیکن وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہاکہ یہ بل کہیں بھی اقلیتوں کے خلاف نہیں ہے۔
شہریت ترمیمی بل 2019کے مطابق، ہندو،سکھ،بودھ،جین،پارسی،اور عیسائی برادری کے لوگ جو 31دسمبر 2014کو پاکستان،افگانستان اور بنگلہ دیش میں مذ ہبی ظلم و ستم کی وجہ سے ہندوستان آئے تھے،انہیں غیر قانونی مہاجرین نہیں سمجھا جائے گا،بلکہ انہیں ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔یہ بل 2014اور 2019کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا انتخابی وعدہ تھا۔
بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے اپنی سابقہ مدت میں لوک سبھا میں یہ بل پیش کیا اور اسے وہاں منظور کرایا۔لیکن انہوں نے شمال مزرقی ریاستوں میں احتجاج کے خدشات کے پیش نظر اسے راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا،لیکن پیر کے روز لوک سبھا میں اپوزیشن جماعتوں کی مکالفت کے با وجود ووزیر داخلہ نے لوک سبھا میں یہ بل پیش کیا،جس پر اپوزیشن جماعتوں نے اعتراض کرتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی۔