نئی دہلی /بھوپال : ریاستی پارٹی کے نئے صدر کے انتخاب کو لے کر مدھیہ پردیش کانگریس کے رہنماؤں جیوتر ادتیا سندھیا،کمل ناتھ اور دگ وجئے سنگھ کے بیچ اقتدار کی جدو جہد کے درمیان کانگریس ہائی کمان مشکل میں ہے،اور ریاست میں پارٹی کا وجود خطرے میں ہے۔ریاستی پارٹی کی صفوں میں بغاوت کی لہر پھیل گئی ہے۔ذرائع کے مطابق اگرسندھیا کو اپنے لئے یا اپنی پسند کے قائد کے لئے عہدہ نہیں ملتا ہے تو اسندھیا کے پارٹی چھوڑنے کے امکان کو مسترد نہیں کیاجا سکتاہے۔
پندرہ سالوں کے بعد مدھیہ پردیش میں کانگریس پارٹی اقتدار میں آئی ہے،سندھیا کو نئی حکومت کی حمایت میں بلایا جانے کا اعتماد تھا،لیکن ریاستی کانگریس کے سربراہ کمل ناتھ نے پارٹی قیادت پر غلبہ حاصل کیا،جس کی وجہ سے وہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔لیکن اب کانگریس نئے ریاستی صدر کی تلاش میں ہے،تو سندھیا کو اپنے لئے ایک موقع نظر آتا ہے۔مگر کمل ناتھ اس عہدے پر اپنے آدمی کو فائز کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سندھیا نے دو بار سونیا گاندھی سے ملاقات کر چکے ہیں۔ کانگریس کی عبوری صدر سے ان کی آخری ملاقات کے بعد،کمل ناتھ کو دہلی بلایا گیا۔
اس دوران،سندھیا کے حامی گروہ،جس میں کانگریس کے ضلعی صدر اشوک ڈانگی اور مورینا کے ضلعی چیف راکیش مووی بھی شامل ہیں۔اگر ریاستی پارٹی کے سربراہ کے انتخاب میں سندھیا کو نظر انداز کیا گیا تو وہ بغاوت کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ڈانگی نے کہا ”ریاستی کانگریس کے کچھ رہنماؤں کو سندھیا کی مقبولیت ہضم نہیں ہو رہی ہے اور انہیں مدھیہ پردیش سے دور رکھنے کی سازش کی جا رہی ہے۔پدھیہ پردیش پی سی سی صدر کے عہدے پر سندھیا کو فائز کرنے ککا مطالبہ کرتے ہوئے کانگریس رہنما دھرنا کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے 114ارکان اسمبلی میں سے 25ارکان اسمبلی سندھیاکے حامی ہیں،اگر سندھیا استعفی دیتے ہیں تو ان میں سے کم از کم 15ارکان پارٹی چھوڑ دیں گے۔سندھیا کے بی جے پی میں شامل ہونے کے امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ ان کا کنبہ طویل عرصے سے بھگوا پارٹی کے قریب رہا ہے۔ان کی نانی وجیا راجے سندھیا سے لیکر ان کی آنٹی وسوندھرا راجے سندھیا تک سبھی بی جے پی لیڈر رہے ہیں۔حال ہی میں دہلی میں بی جے پی صدر امیت شاہ سے جیوتر ادتیہ سندھیا کی ملاقات کی خبریں سامنے آئیں تھیں۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ یونٹ کے سکریٹری وکاس یادو نے کہا کہ پارٹی نے صرف سندھیا کا استعمال کیا اور پھینک دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ”جب انتخابات ہوتے ہیں تو انہیں آگے بڑھایا جاتا ہے،لیکن جب ان کی شراکت کو تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے تو انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔