حیدرآباد ۔ سندریا وگیان کیندرم میں فورم برائے تحفظ آئینی حقوق کے زیر اہتمام سی اے اے این آرسی این پی آر کے خلاف ایک سمینار منعقدہ ہوا جس میں کئی دانشوروں نے خطاب کیا ۔اس سیمنار کو مخاطب کرتے ہوئے نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست عامر علی خان نے کہاکہ سی اے اے این آرسی او راین پی آر محض سماج میں نفرت کی دیوار کو وسعت دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ این آرسی کے حوالے سے ڈٹینشن سنٹرس کی بات کی جارہی ہے اور اگر ہم جیلوں میں جانے کو ترجیح دیں گے تو حکومت کو ملک بھر میں66ہزار ڈٹینشن سنٹرس کی تعمیر کرنی پڑے گی جبکہ آسام میں ایک تحویلی مرکز میں3ہزار کے قریب لوگوں کورکھا جاتا ہے اس کی تعمیر کے لئے 45کروڑ کی لاگت آئی ہے ۔ مرکزی حکومت کواب اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہندوستان کی گرتی معیشت کے باوجود 66ہزار تحویلی مراکز کی تعمیر کے لئے پیسہ کہاں سے لائے گی ۔ سندریا وگیان کیندرم میں فورم برائے تحفظ آئینی حقوق کے زیر اہتمام سی اے اے این آرسی این پی آر کے خلاف منعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے عامر علی خان نے کہاکہ میں اس بات کو تسلیم کرتاہوں کہ مودی حکومت ہندواو رمسلمانوں میں تقسیم چاہتی ہے تاکہ ہندوئوں کومتحد کرے اور ان کے نشانے پر ملک کے وہ 30 فیصد ہندو ہیں جنھوں نے مودی اور بی جے پی کو ووٹ دے کر منتخب کیاہے اور وہ چاہتے کہ تیس فیصد آبادی اور ان کے ووٹوں کے ذریعہ اقتدار پر قائم رہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ وہ ماباقی 70فیصد میں تقسیم پیدا کررہے ہیں چاہئے وہ ہندو ہوں مسلمانوں ہو ایس سی ایس ٹی یا بی سی رہیں۔ آنے والے دنوں میں اگر این آرسی نافذ ہوگا اور این پی آر کے ذریعہ ہم راشن کارڈ آدھار کارڈ یاکسی اور دستاویزات کے اندراج کے ذریعہ شہریت ثابت کرنے کی کوشش کریں گے تو حکومت ہماری شہریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردے گی ۔
انہوں نے کہاکہ یہ معاملہ کسی ہندو کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور خاص طور پر ان کے ساتھ اس کے زیادہ خدشات ہیں جس کا تعلق ایس سی ایس ٹی او ربی سی طبقات سے ہے۔ جب وہ شہریت سے محروم ہوجائے گاتو اسکو یاتو تحویلی مرکز میں ڈال دیاجائے گا یاپھر وہ آواروں میویشوں کی طرح حکومتوں کی مرعاتوں سے محروم ہوکر سڑکوں پر گھومنے پر مجبور ہوجائے گا ۔
انہوں نے کہاکہ اس کے بعد یہ مرحلہ آئے گا کے حکومت اس کو بطور ہندو شہریت دینے کی بات کرے گی تاکہ اس کا ایس سی ایس ٹی بی سی موقف ختم کردیاجائے ۔ اس کامقصد پسماندگی کاشکار طبقات کو جو مرعات فراہم کئے جاتے ہیں اس کو ختم کردیا جاسکے۔جناب عامر علی خان نے انگریزحکمرانوں کے نافذ کردہ قانون کا اس کے لئے حوالہ بھی دیا اور کہاکہ مودی حکومت نے ایسی گیارہ قانون منظور کئے ہیں جو عینی حقوق پر مشتمل ہیں جس میں سے ایک انگلو انڈین کمیونٹی کی ہر اسمبلی میں محفوظ ایک سیٹ کے قانون کی برخاستگی ہے۔ بل منظوربھی ہوگیا اور اس قانون کو مسترد بھی کردیاگیا ہے۔انہوں نے کہاکے اس کے بعد سے سارے ملک کی اسمبلیوں میں عیسائی آواز کو منظم سازش کے تحت برخاست کردیاگیاہے۔