Wednesday, April 23, 2025
Homeتازہ ترین خبریںایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی...

ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی در خواست داخل کرنے کا اعلان

- Advertisement -
- Advertisement -

لکھنؤ: اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے ممتاز ڈگری کالج میں آل اندیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔اس میٹنگ میں ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی در خواست داخل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ساتھ ہی اے آئی ایم پی ایل بی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ مسجد کے لئے پانچ ایکڑ اراضی کو کسی متبادل جگہ پر قبول نہیں کرنا ہے،کیونکہ یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کی ورکنگ کمیٹی کا مذ کورہ اجلاس،بورڈ کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی کی صدارت میں منعقد ہوا۔اس اجلاس میں سپریم کورٹ کے ایودھیا فیصلے کے دس نکات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی)کے سینئیر رکن اور آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی (اے آئی بی ایم اے سی) کے کنوینر ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ”یہ مقدمہ تمام مسلمانوں کی جانب سے عدالت میں دائر کیا گیا تھا اور بورڈ،اس برادری کے جذبات کی نمائندگی کر رہا ہے،جو اپنے آئینی حقوق کو استعمال کرنا چاہتا ہے اور نظر ثانی کی در خواست دائر کریں۔

ظفر یاب جیلا نی نے ایک سوا کے جواب میں کہا یکہ سینئیر وکیل راجیو دھون ان کے وکیل کی حیثیت سے جاری رہیں گے اور وہ 9نومبر کو آنے والے فیصلے کے 30 دن کے اندر درخواست داخل کرنے کی کوشش کریں گے۔یوپی سنی وقف بورد کے چیئیر مین ظفر فاروقی نے پہلے کہاتھا کہ وہ نظر ثانی کی کوئی در خواست داخل نہیں کریں گے۔

تاہم،بورڈ کے اجلاس میں شرکت کرنے والے جمعیت علمائے ہند کے صدر ارشد مدنی نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ انہوں نے نظر ثانی کی در خواست دائر کرنے کے فیصلے کو منظوری دی ہے۔اگر چہ،ہمیں زیادہ امید نہیں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ در خواست خارج کر دی جائے گی پھر بھی ہم نظر ثانی کی در خواست دائرکریں گے۔یہ ہمارا حق ہے۔

بابری مسجد کے مدعی اقبال انصاری کی نظر ثانی کی در خواست داخل کرنے سے انکار پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جیلانی نے کہا کہ بورڈ اپنے آئینی حق کو استعمال کر رہا ہے اور اس معاملے میں کوئی سیاست نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے شاید انصاری پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ نظر ثانی کی در خواست داخل نہ کریں۔بورڈ کے ترجمانوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کافیصلہ خود اختلافی ہے۔”عدالت نے اس حقیقت کو قبول کر لیا ہے کہ اس جگہ پر نماز کی پیشکش کی گئی تھی اور یہ مورتی  22-23دسمبر 1949کورات کو اس جگہ پر زبر دستی رکھی گئی تھی۔سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ وقف قوانین کے تحت،مسجد کی جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔اور مسمار شدہ مسجد کے گنبد تلے کسی بھی مندر کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے متبادل اراضی کے لئے مقدمہ نہیں لڑا تھا۔ظفر یاب جیلانی نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کے عہدیداروں نے دارالعلوم ندوات العلماء میں اجلاس روکنے کی کوشش کی تھی،لہذاا اس جگہ کو تبدیل کر نا پڑا۔

مذ کورہ اجلاس میں سینئیر قائدین مولانا خالد راشد فرنگی محلی،نائب صدر مولانا جلال الدین عمری،خواتین ونگ کی عاصمہ زہرا،بورڈ کے سکریٹری مولانا ولی رھمانی،اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی اور جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی موجود تھے۔